مسئلہ کشمیر تنازعہ نہیں قومی آزادی، حکمرانوں کی نیویارک یاترا
بشیر سدوزئی۔سچ تو یہ ہے
کشمیری نژاد پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کشمیریوں کی قومی آزادی کو تنازعہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ تمام تنازعات کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کو زیادہ بااختیار ہونا چاہئے۔ خواجہ آصف اسی فوج ظفر موج کے ہمراہ ان دنوں نیویارک میں ہیں جس کو وزیر اعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے ہمراہ لے گئے ہیں۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی سمٹ آف دی فیوچر سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کو جموں کشمیر سمیت تمام دیرینہ اور نئے تنازعات کے حل کےلئے زیادہ بااختیار ہونا چاہیے۔ ایسے موقعوں پر مرحوم کے ایچ خورشید یاد آتے ہیں جو فورا غلطیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔ ریکارڈ کی درستگی کے لیے میدان میں اترتے اور فورا کوئی بیان یا پریس کانفرنس کرتے، افسوس کہ اب آر پار کسی ایک بھی کشمیری لیڈر کو یہ جرائت نہیں کہ پاکستانی حکمرانوں کی اس سوچ اور غلطی کو درست کرے یا قوم کی رہنمائی کرے کہ مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان تنازعہ نہیں ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ ہے۔
دنیا قومی آزادی کی تحریک کو الگ پروٹوکول دیتی ہے اور تنازعات کے حل کا طریقہ بالکل بالکل مختلف ہے۔ آج جموں و کشمیر کے عوام کی جو حالت ہے یا اتنی زیادہ قربانیاں دینے کے باوجود تحریک آزادی کشمیر کو دنیا ماننے کے لیے تیار نہیں، اس کی یہی وجہ ہے کہ قومی آزادی کی تحریک جو سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں کشمیریوں نے از خود 1947ء میں شروع کی تھی وقت گزرنے کے ساتھ اس کو دو ملکوں کے درمیان تنازعہ بنا دیا گیا۔ تنازعات تو فریقین کی رضامندی کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔۔ جب سے مسلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ میں بدلا اقوام متحدہ کے ٹیبل پر ہونے کے باوجود سیکرٹری جنرل بار بار کہہ چکا کہ دونوں ملک تیار ہوں تو ہم بھی ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ قابض از خود تنازعہ حل کرنے کیوں تیار ہو گا اگر وہ طاقت ور، ظالم اور بے رحم بھی ہے ۔ اس وقت اقوام متحدہ ثالث بنی ہوئی ہے حالاں کہ رائے شماری کی ضامن بنی تھی جب پنڈت جواہر لعل نہرو کی درخواست پر جنگ بندی کی گئی تھی، اس وقت تو مجاہدین فتوحات پر فتوحات کر رہے تھے اور بھارت کشمیر پر قبضہ اور بھاری فوج کشمیر میں داخل کرنے کے باوجود لرز گیا تھا۔۔ اقوام متحدہ کی مداخلت پر جنگ بندی ہوئی اور مجاہدین کو کئی کلومیٹر پیچھے لایا گیا۔ سیز فائر لائن کا تعین ہوا جسے شملہ میں لائین آف کنٹرول میں بدل دیا گیا۔
تاشقند اور معاہدہ لاہور بھی کشمیریوں کے لیے نیک شگون نہیں لیکن معاہدہ شملہ میں مسئلہ کشمیر کو تنازعہ تسلیم کر کے دو طرفہ مذاکرات کی جو شق شامل کی گئی اس سے کشمیریوں کی کمر توٹ گئی۔ شملہ معاہدہ بین الاقوامی معاہدہ تسلیم ہونے کے بعد اقوام متحدہ نے ہاتھ گھنچ لیا۔۔ اب ہم اقوام متحدہ کو اس لیے کوستے ہیں تاکہ کشمیری عوام کی نظروں میں دھول جھونکتے رہیں۔۔ جب کہ اقوام معاہدہ شملہ کے بعد ضامن نہیں رہی۔۔مدعی کو خبر تک نہیں ہوئی وکیل نے ضمانت کو ثالثی میں کب بدلا اور قومی آزادی کی تحریک دو ملکوں کے درمیان تنازعہ میں کب بدلی۔ اگر معلوم بھی ہوا تو مصلحتوں کے تحت خاموش رہا اور کچھ کو مرعات دے کر خاموش کر دیا گیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ تاشقند، شملہ اور لاہور میں کشمیریوں کی قومی آزادی کی تحریک پر مٹی ڈال دی گئی ۔پاکستانی حکمران کشمیریوں کو خوب لالی پاپ دیتے ہیں اور کشمیری حکمران اور قائدین ان کی تائید و توصیف میں بیان دیتے رہتے ہیں۔ اب تحریک آزادی کشمیر بس یہاں تک ہی رہ گئی ہے۔ اگر کسی سطح پر کوئی بولا بسرا نوجوان آزادی کی بات کر بھی لے تو اس کو اندر سے ہی ایسے فتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کو صفائی دینے میں سالوں گزر جاتے ہیں ۔
محترم وزیر اعظم شہباز شریف ایک اور لالی پاپ دینے نیو یارک پہنچے ہیں جہاں وہ یہ کالم چھپنے والے روز یا ایک دو دن آگئیں پیچھیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ایک دو سطروں میں کشمیر و فلسطین کا حوالہ بھی دیں گے۔ اس بے نتیجہ خطاب سے تحریک آزادی کشمیر کو توانائی ملتی ہے نہ کشمیریوں کو کچھ راحت، لیکن ان کی اس تقریر کی توصیف میں مظفرآباد سے جاری ہونے والے بیانات ابھی سے تیار کر لیے گئے ہوںگے، جن میں اس تاریخی خطاب پر اور کشمیریوں کی بھر پور نمائندگی پر ان کو مبارک باد دی جائے گی۔ کشمیری بھی کیا سادہ ہیں کہ اسی عطار میں پہنچے ہوتے ہیں جہاں کی دوا سے ان کو آفاقہ نہیں ہوتا۔ آزاد کشمیر کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا کیا کہنا ادھر وزیر اعظم پاکستان کا خطاب ہو گا اور ادھر انہوں نے تعریف و توسیع میں ایسے ایسے بیان بازی کرنی ہے کہ اللہ کی پناہ، جیسا اس خطاب کے فوری بعد بھارت کشمیر خالی کر دے گا۔ گزشتہ 50 سالہ شعوری زندگی میں پاکستانی حکمرانوں اور سفارت کاروں کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریریں سن سن کے کان پک گئے۔ حتی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر کے ایکشن کی وہ ویڈیو بھی دیکھی جس میں وہ یو این او کے ٹیبل پر ایجنڈا پھاڑ کر بائی کاٹ کر رہے ہیں لیکن اس عمل سے کشمیریوں کو کہاں کچھ فائدہ ہوا، البتہ بھٹو صاحب راتوں رات مقبول عام ہوئے۔
چھ لاکھ افراد کے قتل ہونے کے باوجود مسلہ کشمیر 27 اکتوبر 1947ء سے آگئیں کیوں نہیں بڑھ رہا، اس کی وجہ تو خود کشمیری ہی ہیں جنہوں نے آج تک اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کیا۔ وقت کے ساتھ علاقوں، زبانوں اور برادریوں میں تقسیم ہوتے گئے۔ آج برصغیر کی اہم ترین ریاست، جو اقتصادی، ثقافتی اور انتظامی لحاظ سے سب سے زیادہ طاقت ور تھی کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر محکوم ہو گئی اور اس کے باسیوں نے آزادی کی ایک نئی منطق نکالی ہے جو روئے زمین پر اپنی نوعیت کی پہلی ہی ہے۔ "کشمیر بنے گا پاکستان" کہنے والوں یا " کشمیر بھارت کا اٹوٹ آنگ" تسلیم کرنے والوں نے تو اس کی بھاری قیمت وصول کی، ریاستی وسائل کی لوٹ مار میں بھر پور اور مکمل حصہ، کوٹے سے زیادہ بڑے بڑے عہدے، آسائشیں اور پرکیف زندگی جی رہے ہیں دہلی ہو یا اسلام آباد بڑی بڑی کوٹھیاں، محلات اور مال و زر کی ریل پہل حاصل کر چکے، لیکن " ہم ہیں پاکستانی پاکستان ہمارا ہے" کا نعرہ لگانے والوں کو ایک لاکھ نوجوانوں کی لاشیں، جیلیں اور ان کے اندر ٹارچر سیلیں، 23 ہزار سے زائد بیوائیں، ایک لاکھ 24 ہزار یتیم بچے، 13 ہزار معصوموں کا ریپ، چھ ہزار آدھی بیوائیاں۔ بھوک نگ بے روزگاری تنگ دستی اور اذیتوں اور بے نام قبروں کے سوائے کچھ نہیں حاصل ہوا، اور اب کوئی آسرا بھی نہیں رہا۔ یہ نعرہ تو سید علی گیلانی کی ایجاد ہے جن کے ساتھ عقیدت مندوں کی اچھی خاصی تعداد جڑی رہی بلکہ جذباتی اور پرخلوص نوجوانوں نے اس نعرے پر جانیں دے دیں۔ کشمیر میں یہ نعرہ آج بھی الحاق ہندوستان کے نعرے کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے اسی باعث بھارت وہاں رائے شماری نہیں ہونے دیتا، تاہم دنیا نے ان نعروں کو قبول ہی نہیں کیا، تو کیا یہاں ہی بس کر دیا جائے یا اس کا کوئی پلان بی بھی ہونا چاہئے۔
میرے نقطہ نظر سے اگر کشمیر سارے کا سارا پاکستان کو نہیں ملتا جس کے امکانات تو صفر سے بھی کم ہیں تو پلان بی جو خود پاکستان کے مفاد میں ہے پر کام ہونا ضروری ہے تاکہ کشمیر بھارت کے جبری قبضہ سے آزاد ہو۔ یہ کام تنازعہ کی صورت میں ممکن نہیں۔ یہ کشمیریوں کی قومی آزادی کی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان اور کشمیریوں کے درمیان باہمی اشتراک و اتحاد اور اعتماد ضروری ہے۔ کشمیریوں پر اعتماد کر کے تحریک آزادی اور سفارت کاری ان کے ہاتھ میں دی جائے اور پاکستان ان کی پشت پناہی کرے۔ بھارت کو بین الاقوامی سطح پر رسوا کرنے کے لیے آزاد کشمیر کی پٹی اور پانچ لکیروں والا جھنڈا بہترین ہتھیار ہے۔ حریت کانفرنس کو آزاد کشمیر کا آئنی حصہ بنا کر اسے کشمیریوں کی نمائندہ حکومت تسلیم کیا جائے اور دوست ممالک سے بھی تسلیم کرایا جائے۔ کشمیر کے مراعات یافتہ طبقے اور لوٹ مار کے حصہ داروں کو اس سے کچھ نقصان بھی نہیں ہو گا۔ بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کو مضبوط کرنا نہ صرف تحریک آزادی کے مفاد میں ہے بلکہ پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔ ورنہ حکمرانوں کی نیویارک یاترا سے کچھ حاصل نہیں ہو گا نہ ہی اقوام متحدہ میں تقریروں سے کچھ ملنے والا۔
ہر سال ستمبر اکتوبر میں دنیا بھر کے حکمران نیویارک جاتے ہیں خاص طورپر تیسری دنیا کے حکمران اس لیے نیویارک کی یاترا کرتے ہیں کہ دنیا کے طاقت ور حکمرانوں سے ملاقات اور اپنے ہی ملک میں ان کو جائز و ناجائز اقتدار کو طوالت کی ضمانت حاصل ہو جائے۔۔ ان اجلاسوں اور تقریروں سے کشمیریوں کو نہ خوش ہونا چاہئے نہ زیادہ پرامید اگر انہیں اپنی ریاست کی بحالی اور آزادی چائیے تو کے ایچ خورشید کے نظریہ اور سیاسی فلسفہ کی طرف پلٹنا پڑھے گا جو انہوں نے 1962ء میں قوم کے سامنے پیش کیا تھا۔۔ اس وقت تو اس درویش کو غدار کا طعنہ دیا گیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ باقی سارے بیانیہ اور نعرے جھوٹے اور بے وقت تھے، بھارت کو قانون شکست کے لیے کے ایچ خورشید کا نعرہ ہی پر اثر ہے۔ جو آج بھی زندہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ نیویارک کے دوران جو ایکشن قابل دید اور قابل تعریف ہے وہ بنگلہ دیش کے عبوری حکمران پروفیسر محمد یونس کے ساتھ ملاقات کا منظر نامہ ہے جس کی جھلکیاں میڈیا پر نشر ہوئیں۔ نریندر مودی اور بھارتی حکمرانوں کے سینوں پر مونگ دلنے کے مترادف تھیں۔جیسے دو بچھڑے بھائی، مدتوں بعد چاہت سے مل رہے ہوں۔
مجھے یہ جھلکیاں دیکھتے ہوئے مسلم لیگ بنگال کے سیکرٹری جنرل ابوالہاشم کی وہ باتیں یاد آ گئیں جو انہوں نے 9 اپریل 1946ء کو دہلی کنونشن کے دوران حسین شہید سہروردی کی اس تجویز کے جواب میں کہی تھی کہ قرارداد لاہور میں مسلم ریاستوں کی جگہ ریاست شامل نہ کریں بلکہ بنگال اور آسام پر مشتمل ایک ریاست اور پہنجاب، سندھ، بلوچستان اور برطانوی سرحدی علاقوں پر مشتمل دوسری ریاست ہو واضح رہے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا ذکر نہیں ۔ سہروردی نا مانے تو قائداعظم نے فرمایا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد دستور سازی کے دوران اس مسلے کا قابل قبول حل نکالا جائے گا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے اسی قابل قبول حل کی طرف توجہ دلائی تو غدار ٹھرا پھر وہ ہوا جو قابل قبول اور قابل ذکر نہیں ، لیکن دیر آید درست آید کے مصداق اب پلان بی پر کام ہوا تو ناراض بھائی قریب آ گئے۔ اس کے منصوبہ سازوں کو سلام اور بنگلہ دیش کے عوام کو سلام جس نے علانیہ کہا کہ قائد اعظم مشترکہ قائد اعظم ہے۔پاکستان نا بنتا تو بنگلہ دیش نا قائم ہوتا ۔ نائید السلام کو سلام کہ جو قدآور عمر رسیدہ سیاست دانوں سے نہ ہوا آپ نے کم عمری میں کر دیکھایا۔۔ کشمیری بھی بنگالیوں کی طرح آپ کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے کے ساتھ کندہ ملا کر چلنے چاتے ہیں ان کو اس طرح بھارت کی قید میں رکھنے کے بجائے ان پر اعتماد اور قریب لائیں ان کو بااختیار بنائے اس سے پہلے کہ وہ دور چلے جائیں اور پلٹنے میں بنگالیوں کی طرح پچاس سال لگ جائیں۔
واپس کریں