دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایوان صدر کو جمہوریت کا مقبرہ بنانے کی تیاری
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
اس وقت اسلام آباد کا ایوان صدر درپردہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بناہؤا ہے ۔ صدر عارف علوی کو ایک نئے ’سیاسی مسیحا‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ عارف علوی پہلے اعتراف کرتے رہے ہیں کہ ان کے پاس سیاسی فریقین کو مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے پر آمادہ کروانے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہے لیکن گزشتہ چند روز کے دوران ان کے لب و لہجہ اور گفتگو میں پر اعتماد اشارے دیکھے گئے ہیں۔گزشتہ روز دنیا ٹی وی پر ایک انٹرویو میں صدر نے امید ظاہر کی کہ اگر فریقین ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول پر راضی ہوں تو انتخابات کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ عارف علوی کے خیال میں انتخابات کی تاریخ کا تعین ہی سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اسی طرح قوم اپنے مسائل حل کرنے کے لئے آگے بڑھ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ صدر کے ساتھ انٹرویو کرنے سے پہلے دنیا نیوز کے اینکر کامران خان نے ہی تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے ساتھ انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے یہ اشارہ دیا تھا کہ اگر انتخابات کی تاریخ کا تعین ہوجائے تو وہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں توسیع پر راضی ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی نہ کوئی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ یہ قانونی لحاظ سے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

عمران خان کی اس بات سے تو انکار ممکن نہیں ہے کہ آئینی تقاضے اور قانون اس ملک کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ ذاتی مفاد، سیاسی ترجیحات، انفرادی انا و ضد ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی قانون کو اس مزاج کی ترویج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی اس ضد کی وجہ سے قانون کو موم کی ناک بنا دیا جاتا ہے۔ اہل پاکستان برس ہا برس سے یہ سارے مشاہدات کرتے آئے ہیں ، اس لئے انہیں کوئی بھی خبر حیران نہیں کرتی اور نہ ہی سیاست دانوں کی قلابازیوں پر حیرت ہوتی ہے۔ عمران خان پہلے ستمبر میں ملک میں سیلاب کی تباہ کاری کے باوجود سیاسی طوفان برپا کرنا چاہتے تھے لیکن اب وہ لانگ مارچ اور احتجاج کی بجائے درپردہ ملاقاتوں میں ’مسئلہ‘ کا کوئی قابل عمل فارمولا تلاش کررہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق اسی مقصد سے ایوان صدر میں ہی ان کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے جس کے بعد عارف علوی بھی معاملات کے کسی مفاہمانہ حل کی امید ظاہر کرنے لگے ہیں۔

بظاہر یہ بہت بڑا ’ریاستی راز‘ ہے کہ ایوان صدر میں کون سی کھچڑی پک رہی ہے ۔ درحقیقت اس راز کے سارے پہلو زبان زد عام ہیں ۔ یہ ملک ایسی سازش نما سیاسی ملاقاتوں اور ڈیلز کے متعد دمراحل سے گزر چکا ہے لیکن حیرت ہے کہ ملکی سیاسی قیادت مسلسل وہی راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے جس پر چلتے چلتے پاکستان اپنے نصف حصہ سے تو محروم ہوگیا لیکن جمہوریت، آئینی بالادستی اور عوامی فلاح کا کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکا۔ صدر عارف علوی کی معاونت سے اس وقت ایوان صدر میں جو منصوبہ تیار کیا جارہا ہے ، وہ بھی ماضی میں کئے جانے والے سمجھوتوں سے کچھ خاص مختلف نہیں ہے۔ یعنی ملک کی طاقت ور اسٹبلشمنٹ چاہتی ہے کہ سارے سیاسی فریق مل بیٹھیں، کسی فارمولے پر متفق ہوجائیں اور سیاسی جلسوں اور بیان بازی میں افواج پاکستان کو موضوع بحث بنانے کا سلسلہ ترک کیاجائے۔ یہ کوئی ناجائز خواہش نہیں ہے لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لئے جو راستہ اختیار کیا جارہا ہے وہ ناجائز بھی ہے اور غیر آئینی بھی۔

کل تک متصادم سیاسی پارٹیوں کے رویوں میں خود کو لاچار قرار دینے والے صدر مملکت اچانک ’پر امید‘ ہوگئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ’آئینی طور سے تو میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کو مجبور کرسکتا ہوں لیکن میرے دروازے سیاسی جماعتوں کے لئے کھلے ہیں۔ اگر وہ میری وساطت سے ملاقات کرنے اور کسی نتیجہ تک پہنچنے پر آمادہ ہیں تو میں سہولت کاری پر تیار ہوں‘۔ اب کامران خان کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا ہے کہ’ کچھ لے دے کے مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ سوال تو صرف انتخابات کا ہی ہے۔ سیاسی لیڈروں کو اس مسئلہ پر اتفاق کرکے مسئلہ حل کرلینا چاہئے تاکہ ملک آگے بڑھ سکے‘۔ گویا صدر مملکت نہ صرف مسئلہ حل کروانے کے لئے پر امید ہیں بلکہ اس کی نوعیت کا تعین کرکے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ اسے کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ عارف علوی نے خود کو ’غیر جانبدار آئینی صدر‘ قرار کرتے ہوئے بھی اس گفتگو میں تحریک انصاف اور عمران خان کی نمائیندگی کا پورا حق ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ امید ہے کہ شہباز شریف کا رویہ مثبت ہوگا ورنہ مجھے ڈر ہے معاشی بحران اس نہج پر نہ چلا جائے کہ عوام سڑکوں پر نکل آئیں۔بات چیت کے لیے میرے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں مگر بہت سے لوگ سیاسی بحران سے نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔ میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں، الیکشن کی تاریخ، شفاف الیکشن اور فی الوقت معاشی بہتری ، یہ تین چیزیں ملک کے لیے بہت ضروری ہیں‘۔

انتخابات کے سلسلہ میں ملکی آئین واضح ہے ۔ حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیاکہ وہ مقررہ آئینی مدت سے ہٹ کر کوئی اقدام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ شہباز حکومت پر دباؤ رہا ہے کہ وہ تمام مشکل سیاسی فیصلے کرکے اب عمران خان کی بات مان لے اور جلد انتخابات پر آمادہ ہوجائے۔ شہباز شریف اسٹبلشمنٹ سے شیفتگی کی تاریخ رکھنے کے باوجود جانتے ہیں کہ اگر موجودہ حالات میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو حکومتی فیصلوں سے پیدا ہونے والی مہنگائی سے ستائے ہوئے لوگ ان کی پارٹی کو ووٹ دینے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ اسی لئے حکومت مزید ایک سال کی مدت چاہتی ہے تاکہ آئیندہ بجٹ میں عوام کو معاشی سہولتوں کا کوئی بڑا پیکیج دے کر مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور سے ’پرکشش ‘ بنایا جائے۔ یہ بحث طلب سوال ہے کہ وزیر اعظم یا مسلم لیگ (ن) کی یہ خواہش یا امید کس حد تک پوری ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں کون سی حکومت عوام کو اب یا چند ماہ بعد کوئی معاشی سہولت دینے کی استعداد حاصل کرسکے گی؟ تاہم موجودہ حکومت کے سارے سیاسی پتے اس ایک امید سے بندھے ہیں۔

دوسری طرف عمران خان فوری انتخاب کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ احتجاجی مہم کے دوران انہیں جو عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے اور حکومت نے مشکل فیصلے کرکے جیسے عوام کو ناراض کیا ہے، اس فضا میں تحریک انصاف کے لئے اکثریت حاصل کرلینا چنداں مشکل نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اب دو تہائی اکثریت کی بات کرتے ہیں۔ اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر ان کی پارٹی تن تنہا دو تہائی اکثریت نہ بھی لے سکی تو وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ بعض چھوٹے سیاسی گروہوں کی مدد سے دو تہائی اکثریت حاصل کرکے نہ صرف اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنا سکیں گے ، دونوں بڑی پارٹیوں یا سیاسی خاندانوں کو انجام تک پہنچا سکیں گے بلکہ موجودہ آئینی انتظام میں ایسی تبدیلی بھی کرسکیں گے جس میں انہیں بطور سربراہ حکومت حتمی اور فیصلہ کن اختیار حاصل ہو۔ یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہے کہ ایسا اختیار یا موقع حاصل ہونے کی صورت میں سیاسی حریفین کے بعد عدلیہ اور فوج ان کے ٹارگٹ ہوں گے اور ان کی کوشش ہو گی کہ کسی طرح ان اداروں کو بے اثر کرکے فرد واحد مکمل اور فیصلہ کن اختیارات حاصل کرلے۔

یہ سیاسی نظریہ یا طریقہ اس حد تک تو قابل قبول ہوسکتا ہے کہ سیاسی مہم کے نتیجہ میں اکثریت حاصل کرنے والا کوئی لیڈر فوج کے غیر آئینی سیاسی کردار کو محدود کرنے کا اقدام کرسکے۔ لیکن جب ایسے لیڈر کا مزاج غیر جمہوری اور اس کے طریقے انتہاپسندانہ ہوں۔ یا اس کی جد و جہد کا محور ذاتی اقتدار و اختیار ہو تو آمرانہ طرز حکومت کا راستہ ہموار ہوتے دیر نہیں لگتی۔ عمران خان اپنے گزشتہ دور حکومت میں مخالفین، میڈیا اور آزادی رائے کو دبا کر اس مزاج کا اظہار کرچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نااہل کروانے کے لئے دائر کیا گیا ریفرنس بھی عمران خان کے شخصی حکمرانی کے تصور و خواہش کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ یہ باور کرنا ممکن نہیں ہے کہ وہ زیادہ طاقت کے ساتھ برسر اقتدار آنے کے بعد مزید طاقت حاصل کرنے کے لئے ہر اقدام کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ ایسی صورت میں یا تو ملک کو طویل سیاسی فسطائی حکومت کا سامنا ہو گا یا کسی بڑے اختلاف کی صورت میں اقتدار پر دسترس رکھنے کی خواہاں فوج آئینی انتظام کو لپیٹنے کی کوشش کرے گی۔ دونوں صورتیں جمہوریت اور پاکستان کی سلامتی و بہبود کے لئے بہت بڑا خطرہ ہوں گی۔

اس کے باوجود اگر عمران خان یا کوئی بھی سیاسی لیڈر عوامی تائد سے انتخابات جیت کر پارلیمنٹ میں اکثریت کرتا ہے اور اسی بنیاد پر تبدیلیاں لانا چاہتا ہے تو اس حق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جمہوری آئینی انتظام میں کسی بھی منتخب حکومت کے فیصلوں کے خلاف جمہوری جد و جہد ہی واحد قابل قبول حل ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ فضا پیدا کرنے کے لئے تمام سیاسی عناصر کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسی سیاسی ثقافت کو پروان چڑھایا جائے جس میں صرف اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی ہی کو تمام حقوق حاصل نہ ہوں بلکہ اقلیتی پارٹیوں کی سیاسی بصیرت سے استفادہ کرنے اور قومی معاملات کو مل جل حل کر نے کا اصول تسلیم کیا جائے۔ صدر پاکستان اگر ایسی کسی افہام و تفہیم کے لئے سرگرم ہوتے تو اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں تھا۔ لیکن موجودہ سرگرمی کا مقصد ’سٹیٹس کو‘ برقرار رکھنا، اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی تسلیم کرنا اور سیاسی گروہوں کو کسی ایسے انتظام پر متفق ہونے پر مجبور کرنا مقصود ہے جس سے مسائل حل کرنے کی راہ تو ہموار ہونہ ہو لیکن ’کچھ لو ، کچھ دو‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ناخوشگوار صورت حال سے نکلا جاسکے۔ تاکہ سیاسی مکالمہ میں فوج پر براہ راست نکتہ چینی کا موجودہ سلسلہ بند ہوسکے۔

یعنی مسئلہ انتخابات کی تاریخ کا تعین نہیں ہے بلکہ یہ طے کرنا ہے کہ فریقین فوج کو بطور ’ریفری‘ کتنے اختیارات دینے پر آمادہ ہیں۔ پاکستانی فوج نے ماضی میں اگر غیر جانبدار ریفری کا کردار ادا کیا ہوتا تو آئینی قباحت کے باوجود وسیع تر مفاد کے لئے ایسے کردار کو قبول کیا جاسکتا تھا۔ لیکن ہمارا ریفری ٹیموں میں میچ برابر کرواکے زاد راہ اپنے مصرف میں لانے کی شہرت رکھتا ہے۔ سیاسی معاملات میں فوج کی بالادستی تسلیم کرنے کے نقطہ نظر سے ایوان صدر کا استعمال جمہوریت کو دفن کرنے کے مترادف ہوگا۔

بشکریہ کاروان نو
واپس کریں