دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
افغان وزیر خارجہ کا پاکستان مخالف بیانیہ
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان حکومت نے پاکستان تحریک طالبان اور پاکستانی حکام کے درمیان بات چیت کی میزبانی کر کے، اپنی ذمہ داری پوری کی ہے۔ دورہ اسلام آباد کے موقع پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر افغان حکومت کے اس دعوے کو دہرایا کہ افغان سرزمین کو پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

امیر خان متقی پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ سے علاقائی مواصلت و تجارت اور امن و امان کے سوال پر بات چیت کے لئے اسلام آباد آئے تھے۔ چین افغانستان کے ساتھ مل کر متعدد تجارتی منصوبے شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور تباہ حال افغان معیشت کی بحالی کے لئے سرمایہ کاری کا اہم ترین ذریعہ ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ کام افغانستان اور چین، پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر نہیں کر سکتے۔ اسی لئے تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ افغان وزیر خارجہ نے اپنے قیام کے دوران وزیر خارجہ اور سول حکومت کے دیگر حکام کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی۔ اس کے علاوہ آئی ایس آئی کا دورہ کر کے دہشت گردی کے حوالے سے افغان پوزیشن واضح کی۔

اخباری رپورٹس کے مطابق افغان عہدیدار نے فوجی حکام پر واضح کیا کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے ہی دہشت گردی کی موجودہ لہر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے باور کروایا کہ ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر لا کر افغانستان نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔ گویا اب اس حوالے سے اس سے مزید کسی ’خدمت یا رعایت‘ کی توقع نہ کی جائے۔ انہوں نے یہی باتیں اسلام آباد کے سیمینار میں بھی دہرائی ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ ہے اور اسے ہی اس سے نمٹنا ہو گا۔

تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کا بار بار حوالہ دے کر انہوں نے بالواسطہ طور سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جیسے پاکستان نے امریکہ کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کے لئے خیرسگالی کا مظاہرہ کیا تھا اور پھر طالبان نے خود امریکی وفد سے بات کر کے امن معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں امریکی افواج افغانستان سے نکل سکیں اور طالبان کی حکومت قائم ہو گئی۔ اسی طرح کابل حکومت نے بھی تحریک طالبان اور حکومت پاکستان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے لئے سہولت کاری کر کے اور ان کی میزبانی کر کے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اگر پاکستان اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکا تو اس کی ذمہ داری اسلام آباد اور راولپنڈی کو قبول کرنی چاہیے۔

پاکستان کے دارالحکومت میں ایک پبلک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ موقف ایک ایسے ملک کے وزیر خارجہ نے اختیار کیا ہے جو بنیادی اشیائے صرف سے لے کر، زرمبادلہ، تجارتی راہداری اور مستقبل میں سرمایہ کاری اور معاشی احیا کے لئے ہر طرح سے پاکستان کی خوشنودی اور براہ راست تعاون کا محتاج ہے۔ ابھی تک پاکستانی حکام کی طرف سے افغان وزیر خارجہ کے دورہ اور دہشت گردی کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ لیکن اپنے دورے کے آخری دن اسلام آباد میں ایک سیمینار میں سے خطاب کرتے ہوئے افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے درحقیقت تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں مکمل طور سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں سے پاکستانی حکام کو آگاہ کر دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں تحریک طالبان کی دہشت گردی اور ہلاکت خیزی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پاکستان اس مسئلہ سے دو دہائی سے نبرد آزما ہے۔ اور پاکستانی حکام خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی میں 80 ہزار سے زیادہ فوجی اور شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ البتہ انہوں نے اس دلیل کو پاکستان کے موقف کی مضبوطی کی بجائے یہ واضح کرنے کے لئے استعمال کیا کہ افغانستان سے اس بارے میں زیادہ امیدیں وابستہ نہ کی جائیں۔

امیر خان متقی اگر یہ باتیں کابل پہنچ کر کہتے تو انہیں مقامی سیاسی ضرورتوں کے لئے جاری ہونے والا بیان سمجھا جاسکتا تھا لیکن انہوں نے یہ سب باتیں اسلام آباد کے ایک سیمینار میں کی ہیں جس کی وجہ سے ان باتوں کی شدت اور پاک افغان تعلقات کی نوعیت کے بارے میں متعدد سوالات جنم لیتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی خاموشی صورت حال کو مشکل بنانے کا سبب بنے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ وزارت خارجہ ہی نہیں بلکہ پاک فوج بھی امیر خان متقی سے ہونے والی بات چیت اور ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے بارے میں اپنا موقف واضح کرے تاکہ عوام یہ جان سکیں کہ افغانستان پر بھی وہ تمام باتیں واضح کر دی گئی ہیں جن کا اظہار گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت اور فوجی قیادت نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور اس دہشت گرد گروہ کو رعایات دینے کی سابقہ پالیسی کو غلط قرار دے کر اسے تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ آرمی چیف دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں خوں ریزی میں ملوث عناصر کے ساتھ بات چیت نہیں ہو سکتی۔ یا تو وہ ہتھیار پھینکیں گے یا ان کا قلع قمع کیا جائے گا۔ اب افغان وزیر خارجہ ایک بار پھر انہی عناصر کے ساتھ بات چیت کرنے اور اسے ایک دیرینہ مسئلہ بتا کر خود کو اس معاملہ سے علیحدہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں تو درحقیقت اس بیان میں پاکستان کی نئی پالیسی کو مسترد کیا گیا ہے۔ پاکستانی حکومت اور عسکری قیادت کے لئے یہ طرز عمل قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ طور سے پاکستان نے طالبان کی اس وقت بھی مدد کی تھی، جب امریکہ کی قیادت میں عالمی اتحاد انہیں نیست و نابود کرنے کا تہیہ کیے ہوئے تھا۔ پاکستان نے امریکی الزامات اور پابندیوں کا سامنا کر کے طالبان کے لئے کسی حد تک سہولتیں فراہم کرنے کا اہتمام کیا تھا لیکن کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی سے گریز نہیں کیا گیا۔ اب بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دے کر درحقیقت پاکستان میں ان عناصر کی دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے شہریوں اور فوجیوں کی قربانیوں کو بھول جانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔

ہر تصادم کے بعد کسی نہ کسی صورت مصالحت کی صورت نکالی جاتی ہے لیکن تحریک طالبان پاکستان نے متوازی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے تشدد اور دہشت کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ایسے گروہ سے اس وقت تک بات چیت بے سود رہے گی جب تک وہ ہتھیار پھینک کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ٹی ٹی پی کی خود سری کی واحد وجہ کابل حکومت کی سرپرستی ہے۔ امیر خان متقی کے انکار سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی کہ تحریک طالبان کے دہشت گرد افغان سرزمین پر پناہ ملنے ہی کی وجہ سے پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

افغانستان معاشی اور سفارتی لحاظ سے پاکستان کا دست نگر ہے۔ اب چین کے ساتھ رابطوں اور چینی سرمایہ کاری کے لئے بھی طالبان حکومت کو اسلام آباد کی خیر سگالی درکار ہوگی۔ پاکستانی حکام پر لازم ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے بارے میں اپنی حکمت عملی کا ابہام ختم کر کے افغان حکومت پر واضح کریں کہ جب تک اس پاکستان دشمن گروہ کی وکالت اور سرپرستی کا چلن تبدیل نہیں ہو گا، اس وقت تک اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہو سکتے۔

اسلام آباد مصالحانہ اور نرم خوئی کا رویہ اختیار کر کے دیکھ چکا ہے۔ اگر طالبان حکومت پاکستان میں دہشت گردی کے قلع قمع میں صمیم قلب سے تعاون پر آمادہ نہیں ہوتی تو معاشی اور سفارتی دباؤ بروئے کار لایا جائے۔ افغان وزیر خارجہ اسلام آباد کے سیمینار میں افغان معاشی ترقی کے بارے میں جو بلند بانگ دعوے کر کے گئے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ پاکستانی حکومت اور عوام کے تعاون اور قربانیوں کی وجہ ہی سے ممکن ہو پائی ہے۔ افغانستان کو اگر خوشحالی اور امن درکار ہے تو اسے ہمسایہ ملک میں بھی خوشگوار ماحول اور امن کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں