دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سپریم کورٹ ہر طرح سے مشکل میں
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
ایک ہی وقت انتخابات کے سوال پر گو کہ ملک میں حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ منگل کو دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے لیکن دونوں طرف کے لیڈر جس طرح ایک دوسرے کے بارے میں دھمکی آمیز طرز بیان اختیار کر رہے ہیں، اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ان مذاکرات کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ اور اب دونوں طرف کے لیڈر اس ناکامی کا بوجھ دوسرے پر ڈال کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔اگرچہ مذاکرات کے آغاز کے وقت ہی حکومت کی پوزیشن واضح تھی کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات عام انتخابات سے علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ ملک کی تمام اسمبلیوں کے لئے ایک ہی وقت انتخاب ہونا چاہئیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ موجودہ اسمبلیاں اگست میں اپنی مدت پوری کریں گی جس کے بعد نگران حکومتیں قائم ہوں گی۔ تب ہی انتخابی شیڈول تیار ہو سکے گا۔ اس طرح حکومت اکتوبر میں انتخابات کا اشارہ دے چکی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی حکومت نے یہی موقف اختیار کیا ہے اور سکیورٹی کی صورت حال کا حوالہ دے کر عدالت کو بتایا گیا تھا کہ موجودہ حالات میں کسی صوبے میں انتخابی ڈیوٹی کے لئے مطلوبہ فورسز فراہم نہیں ہو سکتیں، اس لئے اکتوبر تک انتظار کرنا مناسب ہو گا۔ عدالت نے اس دلیل کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کہ عدالت فیصلہ دے چکی ہے جسے واپس نہیں لیا جاسکتا۔

گو کہ سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے گزشتہ سماعت میں پنجاب میں انتخابات کے سوال پر کارروائی مکمل کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریری عدالتی حکم جاری کر دیا جائے گا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ سیاسی پارٹیوں کو اتفاق رائے کر لینا چاہیے ورنہ آئین بھی موجود ہے اور عدالت کا فیصلہ بھی برقرار ہے۔ اس دوران میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات کے بارے میں جمع کروائی ہوئی رپورٹ میں کہا ہے کہ نہ فنڈز ملے ہیں اور نہ سکیورٹی فراہم کی گئی ہے اس لئے عدالت عظمی کے حکم کے مطابق 14 مئی کو انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے۔ قیاس کیا جا رہا تھا کہ اگر حکومتی پارٹیوں اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت میں کسی طریقہ کار اور شیڈول پر اتفاق ہوجاتا ہے تو شاید کسی بڑے آئینی و سیاسی بحران سے بچا جاسکتا ہے۔

عمران خان البتہ واضح کرتے رہے ہیں کہ حکومت اگر فوری طور سے اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کروانے کا اعلان نہیں کرتی تو بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یکم مئی کو ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین نے اعلان کیا ہے کہ پنجاب میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 14 مئی کو انتخاب ہوں یا اس تاریخ تک قومی اسمبلی اور دیگر اسمبلیاں توڑ کر ایک ہی وقت پر انتخابات کے لئے اتفاق رائے کر لیا جائے۔ عمران خان یہی اعلان دو روز پہلے ایک ٹی وی خطاب میں بھی کرچکے ہیں۔ طے شدہ مذاکرات سے پہلے تحریک انصاف کے چئیر مین کی طرف سے حکومت کے بارے میں دھمکی آمیز رویہ نے کسی سیاسی اتفاق رائے کی رہی سہی امید بھی ختم کردی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ اب مسلم لیگ (ن) کے متعدد لیڈروں نے عمران خان کو دہشت گرد اور انتشار پسند قرار دیتے ہوئے مذاکرات کو بے معنی قرار دیا ہے۔ جبکہ شاہ محمود قریشی جو تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کا حصہ ہیں، نے سوال کیا ہے کہ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو اس کے لیڈر شدید مخالفانہ بیانات کیوں دے رہے ہیں؟ حالانکہ انہیں یہ سوال تو عمران خان سے بھی کرنا چاہیے تھا۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران حکومت کے ساتھ مذاکرات کے پہلے دور کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ اگر حکومت فوری انتخابات پر راضی نہیں ہوتی تو ہماری ٹیم بات چیت میں شریک نہ ہو۔ تاہم اسی روز ہونے والی بات چیت کے بعد شاہ محمود قریشی اور اسحاق ڈار نے مذاکرات کا تیسرا دور 2 مئی کو منعقد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ بات چیت میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

یوں لگتا ہے کہ دونوں سیاسی گروہ اس وقت سے اپنے اپنے طور پر مذاکرات کو ناکام بنانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان مذاکرات کے آغاز کے وقت ہی فریقین کی پوزیشن واضح تھی۔ عمران خان فوری انتخاب چاہتے ہیں جبکہ حکومت پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات ملتوی کرنے کے بارے میں تحریک انصاف کو پوزیشن تبدیل کرنے پر آمادہ کرنا چاہتی تھی تاکہ سپریم کورٹ کو اس معاملہ سے باہر نکلنے کے لئے ’سپیس‘ مہیا کی جا سکے۔ اس کے بدلے میں یہ امکان موجود تھا کہ حکومت تحریک انصاف کے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے والے ارکان کو واپس لینے، پارٹی کو اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن دینے اور بعض آئینی ترامیم پر راضی ہو جائے گی۔ ایسی صورت حال سب سیاسی فریقوں اور ملک و قوم کے لئے سود مند ہو سکتی تھی۔ تاہم اس دوران میں پہلے عمران خان اور اب مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کے تند و تیز بیانات اور الزامات نے صورت حال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لئے جو خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت تھی، اسے جان بوجھ کر خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

عمران خان کو اندیشہ ہے کہ حکومت مذاکرات میں تحریک انصاف کو زیادہ مراعات دینے پر تیار نہیں ہوگی۔ اسی لئے انہوں نے یوم مئی سے خطاب کرتے ہوئے 14 مئی تک اسمبلیاں توڑنے پر اصرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کے بچھائے ہوئے جال میں نہیں آئیں گے۔ البتہ وہ واضح نہیں کرپائے کہ وہ کس ’جال‘ کی بات کر رہے ہیں۔ ایک ہی وقت انتخابات کی تجویز دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح کر دیا تھا کہ قومی اسمبلی اگست میں اپنی مدت پوری کرے گی۔ درحقیقت تحریک انصاف اور حکومتی وفود کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ طرفین کے درمیان ملاقاتوں میں دونوں طرف سے اپنے اپنے مطالبات ہی پیش کیے گئے حالانکہ یہ مطالبات یا پارٹی پوزیشن تو پہلے ہی واضح تھی۔ مذاکرات کے دوران میں تو ان متضاد پوزیشنز میں سے راستہ نکالنے کے لئے کام کرنا چاہیے تھا۔ ایک تجویز یہ تھی کہ عید الاضحیٰ کے بعد انتخابات کروا لئے جائیں۔ اس مقصد کے لئے قومی اسمبلی فوری طور سے توڑنا ضروری تھا لیکن حکومت اس پر راضی نہیں ہے۔ اس کا متبادل یہی تھا کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپسی کے بدلے اکتوبر میں انتخابات کی یقین دہانی حاصل کر لیتی۔

تحریک انصاف کے لیڈر اور چیئرمین چند ہفتے پہلے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کی مقررہ آئینی حد کے حوالے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر انتخابات کے التوا کی بات مان لی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اکتوبر میں انتخابات ہوجائیں گے۔ گویا عمران خان کی سیاسی پوزیشن یہی تھی کہ اگر حکومت اکتوبر میں انتخابات کی سو فیصد یقین دہانی کروا دے تو تحریک انصاف چند ماہ انتظار کرنے پر آمادہ ہے۔ لگتا ہے نہ حکومت ایسی ضمانت دینے پر تیار ہے اور نہ ہی تحریک انصاف انتظار کرنے کے موڈ میں ہے۔ عمران خان کو لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں حکومت 14 مئی کو اسمبلیاں توڑنے پر آمادہ ہو جائے گی تاکہ تحریک انصاف کے ساتھ اتفاق رائے کی صورت میں وہ توہین عدالت کے الزام یا سزا سے بچ سکے۔ دوسری طرف شہباز شریف کی حکومت نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عدالت عظمی میں پیدا ہونے والے افتراق کی صورت حال میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی پوزیشن متاثر ہوئی ہے اور سپریم کورٹ موجودہ حالات میں مزید ایک حکومت کو نا اہل قرار دینے کا حوصلہ نہیں کرے گی۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ حکومت یا عمران خان میں کس کا اندازہ درست ہے تاہم عمران خان کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے مذاکرات مخالف رویہ اختیار کر کے باہمی بات چیت کی کامیابی کے امکانات ختم کر دیے ہیں۔ 2 مئی کو اگر حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف کے وفود ملے بھی تو بھی وہ اس موقع کو ایک دوسرے پر الزام لگانے کے لئے ہی استعمال کریں گے کیوں کہ موجودہ تعطل کا کوئی حل میز پر موجود نہیں ہے۔ عمران خان اب سپریم کورٹ سے اپنا حکم نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کی درخواست بھی کرنے والی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر نواز شریف کے خلاف ہونے والی عدالتی ’نا انصافی‘ کی تلافی پر اصرار کرتے ہوئے متوازی مواقع پر اصرار کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر جاوید لطیف نے دو ٹوک الفاظ میں نواز شریف کی غیر موجودگی میں انتخابات کروانے کی پر تجویز کو مسترد کیا ہے۔

ان حالات میں اب یہ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ چیف جسٹس کی قیادت میں سہ رکنی بنچ اگر 14 مئی کو پنجاب میں انتخاب کروانے پر مصر رہتا ہے تو حیرت ہے کہ اس عدالتی حکم پر عمل درآمد کے لئے بارہ تیرہ دن میں کون سا معجزہ رونما ہو سکتا ہے۔ یا سپریم کورٹ اپنا حکم منوانے کے لئے کون سا قانونی ہتھکنڈا استعمال کر سکتی ہے۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ فاضل جج حضرات ملکی حالات، معاشی ابتری اور فوج کی وضاحت کے بعد اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کی راہ اختیار کر لیں۔اس صورت میں کیا عمران خان سپریم کورٹ سے مایوس ہو کر کیا فوج کے بعد اب عدلیہ کے خلاف بھی محاذ کھول لیں گے؟ وہ پہلے ہی احتجاج کا نیا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کر رہے ہیں لیکن یہ اعلان سپریم کورٹ کو قوت فراہم کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ اگر سیاسی دباؤ کو اپنی قوت سمجھنے کی غلطی کر بیٹھی تو عدالتی نظام اپنی ساکھ کھو بیٹھے گا۔

(بشکریہ کاروان ، ناروے)
واپس کریں