دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نسل انسانی کی ابتداء اور ارتقاء کے مختلف ادوار
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
آج کی دنیا میں بھی انسانی تایخ اور مختلف ادوار کو ان کے زیر استعمال دھاتوں یا اوزاروں کے حوالے سے ہی تقسیم اور زکر کیا جاتا ہے ، مثال کے طور پر پتھر کا دور ، کانسی کا دور ، اور لوہے کا دور ۔ کرہ ارض پر انسانی آثار تقریباً چالیس لاکھ سال پرانے ہیں جو یوگنڈا اور تنزانیہ، افریقہ سے ملے ہیں انسان بنیادی طور پر جس فیملی سے تعلق رکھتا ہے اس کو " ہومو سیپئین " کہا جاتا ہے اور اس فیملی کی مختلف اقسام آج بھی اس دنیا پر موجود ہیں جن کی بنیادی جسمانی ساخت انسان سے ملتی جلتی ہے اور ان کے ڈی این اے اور انسانی ڈی این اے میں آج بھی چھیانوے پرسنٹ مماثلت موجود ہے ۔
انسان کو اس کی ساخت ، ارتقاء ، سماج اور بودوباش کے حساب سے مختلف ادوار کے لئیے مختلف نام دئیے گئے تقریبا پچیس سے بیس لاکھ سال قبل کے انسان جو گروہوں کی شکل میں رہا کرتا اور کرہ ارض پر پاے جانے والے خونخوار جانوروں سے بچنےکے لئیے زیادہ تر درختوں پر بود و باش رکھتا تھا اس انسان کو " ہومو ہیبیلس " کہا جاتا ہے یہ ان گھڑے پتھروں سے گھیرے میں آے شکار کو پتھر مار مار کر ہلاک کیا کرتے تھے ۔ ان کے بعد جو انسانی نسل سامنے آتی ہے اسے ہومو اریکٹس کہا جاتا ہے یہ پہلے والے ہومو ہیبیلس کے مقابلے میں زیادہ چالاک اور زرا زیادہ منظم تھے ان کا ایک سراغ کوہ ہمالیہ کے دامن میں شوالک کی پہاڑیوں اور راولپنڈی کے دریاے سواں کے کناروں پر ملتا ہے یہاں ان کے بناے ہوے پتھر کے گھڑے ہوے اوزار اور کچھ فاسلز برآمد ہوے ہیں یہاں ملنے والے انسانی آثار کو انڈیا کے حوالے سے " راما پیتھکس " کا نام دیا گیا تو یہ نسل جو بنیادی طور پر ہومو اریکٹس تھی پہلے والے ہومو ہیبیلس سے اس طرح کچھ مختلف تھی کہ یہ یعنی ہومو اریکٹس گھڑے ہوے یا تراشے ہوے پتھر بطور ہتھیار استعمال کیا کرتے تھے اس قسم کا راج کرہ ارض پر لاکھوں سال تک رہا ۔
تقریبا آٹھ سےپانچ لاکھ سال قبل ان سے زرا بہتر انسانی نسل ارتقاء پزیر ہوئی جن کی قبریں یا مدفن ہمیں جرمنی کے مقام " نیندر تھل " سے ملے اس لئیے اس نسل کا نیندر تھل کے نام سے تزکرہ کیا جاتا ہے یہ نسل گھڑے ہوے پتھروں کے علاوہ لکڑی کے ڈنڈے وغیرہ اور پتھر ان ڈنڈوں کے آگے باندھ کر ابتدائی قسم کے کلہاڑے بھی شکار اور گوشت وغیرہ کاٹنے کے لئیے استعمال کرنے لگے ۔ اسی انسانی نسل نے آگ جلانا شروع کیا اور زیادہ تر غاروں میں بودو باش رکھی ، دنیا کے کئی خطوں میں اس نسل کے رہائشی غاروں سے ان کی باقیات اور رہائش کے ثبوت بھی ملے ہیں بلکہ فرانس کے چند غاروں سے ان غاروں کی دیواروں پر اس نسل کی بنائی ہوئی تصاویر تک دریافت ہوئی ہیں ۔ یہ اپنے مردوں کو ان کے ہتھیاروں اور استعمال کے برتنوں سمیت دفن کرتے ، شاید ان میں بھی حیات بعد از موت کا تصور موجود تھا کہ مردہ جب دوبارہ اٹھے گا تو یہ ہتھیار استعمال کرے گا ۔ اس نسل نے مٹی کے سادہ ساخت کے برتن بھی بنانے شروع کر دئیے تھے کسی چاک کے بغیر ان کا برتن بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک ٹوکری بن کر اس کے اندر چکنی مٹی لیپ دی جاتی اور پھر اس برتن کو خشک کر کے آگ میں ڈال کر پکا لیا جاتا جس سے تیلیوں کی ٹوکری تو جل جاتی لیکن ایک پکی ہوئی مٹی کا برتن تیار ہو جاتا ، اس طرح برتن کی بیرونی سطح پر تیلیوں کے نشان بن جاتے ، دلچسپ بات یہ کہ دنیا کہ کئی حصوں میں کمہار آج سے کچھ عرصہ قبل تک مٹی کے برتنوں کے باہر ویسی ہی لکیریں بنا دیا کرتے تھے کہ۔ان کا قدیمی خیال یا عقیدہ تھا کہ اس طرح کھانا مزیدار پکتا ہے ،، تو اس نسل یعنی نیندر تھل کا سراغ ہمیں تقریباً تین لاکھ سال قبل تک ملتا ہے ۔
ان کے بعد کرہ ارض پر ایک نئی اور ان کی بہ نسبت زیادہ چالاک انسانی نسل کا ثبوت ملتا ہے جس کو آج ماہرین . . " کرو میگنان "" کے نام سے زکر کرتے ہیں اس نسل نے نیندر تھل کو یا تو ختم کر دیا یا کسی حد تک اپنے اندر ضم کر لیا ان کا وجود ہمیں ایک لاکھ سال قبل تک ملتا ہے اور ہماری شکل کے انسان کا سراغ تقریباً ایک لاکھ سال قبل سے ملتا ہے ، ان تمام نسلوں اور ان کے آثار و باقیات پر باقائدہ تحقیق ہو چکی ہے اور ریڈیو کاربن ٹیسٹ کے زریعے ان آثار کی درست عمر اور عرصہ بھی معلوم کر لیا گیا ہے اور یہ باقیات و آثار دنیا کے مختلف عجائب گھروں میں ایک قدیم ترین انسانی ورثہ کے طور پر محفوظ کر لئیے گئے ہیں ۔ لہزا یا تو مزہبی عقائد کے اسی طرح زمینی اور سائنسی شواہد کے ساتھ بات ہونی چاہئیے یا ان اعتقادات کو سائنس سے علہدہ رکھنا چاہئیے تاکہ جس طرح بیسویں صدی میں آ کر " چرچ " کو گلیلیو ، سے معافی مانگنی پڑی ایسی صورتحال پیدا نہ ہو ۔

واپس کریں