دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا چیف جسٹس بندیال دوسرا ثاقب نثار بننے سے بچ سکیں گے؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلہ کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت شروع کی ہے۔ چیف جسٹس پر مشتمل پانچ رکنی بنچ میں ایک بار پھر سینئر ججوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس دوران یکم مارچ کو پانچ رکنی بنچ میں شامل دو ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنا اختلافی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ اس فیصلہ میں چیف جسٹس کے اختیارات کے علاوہ پنجاب میں انتخابات کے بارے میں سوموٹو اختیار کے تحت تشکیل دیے گئے بنچ کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ان دو ججوں کے فیصلہ کے مطابق یکم مارچ کو جس پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ صادر کیا، وہ صرف انتظامی معاملہ تھا۔ اس بارے میں دو دیگر ججوں جسٹس آفریدی اور جسٹس من اللہ نے جو رائے دی تھی، حتمی فیصلہ میں اسے شامل نہ کرنا چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں تھا۔ اختلافی فیصلہ کے مطابق سو موٹو اختیار کے تحت پنجاب انتخابات کے بارے میں آئین شق 184 ( 3 ) کے تحت غور کرنے کو سات میں سے چار ججوں نے مسترد کر دیا تھا۔ یوں یہ معاملہ چار کے مقابلے میں تین ججوں نے مسترد کر دیا تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ جاری کیا اسے تین دو کی اکثریت سے قرار دیتے ہوئے نافذالعمل سمجھا گیا تھا۔ اسی لئے الیکشن کمیشن نے صدر مملکت اور گورنر خیبر پختون خوا کو انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا مشورہ دیا تھا اور صدر عارف علوی نے پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کی منظوری دی تھی جبکہ خیبر پختون خوا کے گورنر حاجی غلام علی نے انتخاب کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اب الیکشن کمیشن کی طرف سے عدالت عظمی کے حکم کے خلاف انتخابات ملتوی کرنے کے معاملہ پر سماعت شروع کی ہے لیکن اس دوران اصل فیصلہ کرنے والے بنچ کے دو ارکان کا تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد قانونی صورت حال پیچیدہ اور مشکل ہو گئی ہے۔ آج کی سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔ اب عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کیے ہیں اور متبادل دلائل کے دوران جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ کا حوالہ بھی سامنے آئے گا اور اس موقف پر بھی بات ہوگی کہ یکم مارچ کا فیصلہ تین دو کی اکثریت سے ہوا تھا یا اسے چار تین کی اکثریت کا فیصلہ سمجھا جائے۔ اختلافی فیصلہ میں دی گئی رائے کے مطابق یکم مارچ کو ہونے والا فیصلہ درحقیقت چار تین کی اکثریت سے انتخابات کے سوال پو سوموٹو لینے کے خلاف تھا کیوں کہ بنچ میں شامل چار ججوں نے ہائی کورٹ میں زیر غور ایک معاملہ میں سو موٹو لینے کو غلط قرار دیا تھا۔

سماعت کے دوران ججوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر غور کرتے ہوئے بنچ میں شامل ججوں میں کوئی خاص جوش و خروش یا پریشانی نوٹ نہیں کی گئی۔ ریمارکس کے دوران ججوں نے اسے توہین عدالت کا معاملہ قرار دینے سے گریز کیا۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس نے سیاسی فریقین سے پرامن حالات کی یقین دہانی بھی طلب کی ہے۔ اگرچہ یہ معاملہ بنیادی طور پر اس ایک اصول پر استوار ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نے انتخابات اکتوبر تک ملتوی کر کے سپریم کورٹ کے فیصلہ سے انحراف کیا ہے۔ البتہ فیصلہ کرنے والے بنچ میں شامل دو ارکان کے تفصیلی اختلافی نوٹ کی اشاعت کے بعد سپریم کورٹ کے موجودہ بنچ کو اس معاملہ پر زیرکی سے غور کرنا ہو گا۔اب معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے بلکہ اب یہ نکتہ بھی اٹھایا جائے گا کہ جس فیصلہ پر عمل درآمد نہ ہونے کا قضیہ سامنے آیا ہے، کیا وہ واقعی بنچ کی اکثریت کا فیصلہ تھا۔ جسٹس شاہ اور جسٹس مندوخیل نے اسے اکثریتی فیصلہ ماننے سے انکار کیا ہے۔ اس لئے اس اختلافی نوٹ کو عدالتی بنچوں میں سامنے آنے والے معمول کے اختلاف سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے کیوں کہ اس میں اس بنیاد پر ہی سوال اٹھا دیا گیا ہے جس کے تحت الیکشن کمیشن کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس اور امن و امان کے لئے سیاسی جماعتوں سے ضمانت مانگنے کے طرز عمل سے بھی یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ جسٹس عمر عطا بندیال اس مشکل اور پیچیدہ معاملہ سے نکلنے کے لئے کوئی مفاہمانہ طریقہ اختیار کرنے پر غور کر رہے ہیں اور موجودہ حالات کی ذمہ داری خود قبول کرنے کی بجائے سیاسی فریقین پر ڈال کر سپریم کورٹ کو اس مشکل قانونی اور سیاسی پیچیدگی سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اس مقدمہ کی مزید کارروائی کے دوران اگر چیف جسٹس نے اس سے پہلے سرزد ہونے والی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے کوئی انتہا پسندانہ طرز عمل اختیار کرنے سے گریز کیا اور سیاسی معاملات حل کرنے کی ذمہ داری سیاست دانوں پر ہی ڈالنے کا اہتمام کیا تو سپریم کورٹ پر ہونے والی تنقید میں کمی آئے گی اور چیف جسٹس کے طرز عمل کے بارے میں پیدا ہونے والے شبہات بھی ختم ہو سکیں گے۔جسٹس عمرعطا بندیال چند ماہ میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اگر وہ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور خود کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح متنازعہ بنانے سے بچنا چاہتے ہیں تو اب بھی ان کے پاس حالات تبدیل کرنے، سپریم کورٹ کی پوزیشن واضح کرنے، سوموٹو لینے، بنچ بنانے اور دیگر انتظامی معاملات میں انقلابی تبدیلیاں کر کے نیک نامی حاصل کرنے کا موقع موجود ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آج کی سماعت کے دوران سیاسی فریقین سے امن و امان اور انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے اہم سوال کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتہائی افسوسناک صورت حال ہے کہ تمام فریقین دست و گریبان ہیں۔ تحریک انصاف اور حکومت یقین دہانی کرائے کہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں یا نہیں؟ جب تک تمام فریقین راضی نہ ہوں، ہم ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ آئین کی تشریح حکومتیں بنانے یا حکومتیں گرانے کے لیے نہیں ہوتی۔ آئین کی تشریح عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قیام امن کے لیے تحریک انصاف نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ الیکشن چاہتے ہیں تو فریقین کو پُرامن رہنا ہو گا۔ شفاف انتخابات کے لئے پی ٹی آئی اور حکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی مانگتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یقین دہانی کیسی ہوگی، یہ فیصلہ دونوں فریقین خود کریں۔ عوام کے لئے کیا اچھا ہے کیا نہیں، اس حوالے سے فریقین خود جائزہ لیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ انتخابات پُرامن، شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں۔ الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کو چلانے کے لئے بہت اہم ہے۔ الیکشن کا عمل شفاف اور پُرامن ہونا چاہیے۔ آرٹیکل 218 انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے لیڈروں نے اب تک کیا کیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایک سوچ ہے کہ ملک میں انتخابات اسی وقت ہونے چاہیں جب امن و امان ہو۔ انتخابات آزادانہ، شفاف اور بے خوف و خطر ہونے چاہئیں۔ عدالت سے باہر جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہمارے سیاست دان ملک میں استحکام کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ یہ بہت پریشان کن سوچ ہے۔ تحریک انصاف بھی ملک میں امن و امان اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ تمام سیاسی جماعتیں ملکی کشیدگی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کریں۔ آئین اور قوانین لوگوں کے تحفظ کے لئے ہیں، ہم حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے‘ ۔

چیف جسٹس کے یہ تفصیلی ریمارکس ملکی سیاسی طاقتوں کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کرنے کے علاوہ بین السطور یہ واضح کرنے کی کوشش ہیں کہ ہر معاملہ میں عدلیہ کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنے کا رویہ ترک کیا جائے۔ اگرچہ یہ باتیں محض ریمارکس کی صورت میں سامنے آئی ہیں اور اس وقت تک ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی جب تک عدالتی بنچ اپنے حتمی فیصلہ میں تمام حالات کا گہرائی سے جائزہ لے کر کوئی حکم صادر نہیں کرتا۔ البتہ آج کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس سے دو باتوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ایک یہ کہ عدالت صوبوں میں انتخابات کے سوال کو ملک کی امن و امان کی صورت حال سے ملا کر دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ نہایت اہم نکتہ ہے۔ انتخابات ملتوی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے اسی طرف اشارہ کیا تھا۔ دوسرے چیف جسٹس اس تاثر کو زائل کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی قیادت میں کام کرنے والے عدالتی نظام میں عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور انہیں ایسی رعایات حاصل ہوئی ہیں جو اس سے پہلے کسی سیاسی پارٹی کو نہیں مل سکیں۔

مسلم لیگ (ن) اور حکومت مسلسل اس پہلو کی طرف توجہ دلواتے رہے ہیں کہ عدالتیں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو غیر معمولی رعایت دے رہی ہیں۔ چند منٹوں میں متعدد مقدمات میں ضمانت دینا، ججوں کا بیٹھ کر عمران خان کی آمد کا انتظار کرتے رہنا اور زمان پارک اور اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں پولیس اور رینجرز کے ساتھ براہ راست مقابلہ بازی کے باوجود، کسی مقدمہ کی سماعت کے دوران سرزنش کی بجائے حفاظتی ضمانت دے کر پولیس کو بے دست و پا کرنے کا طریقہ ملک میں جاری سیاسی بحران میں شدت پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔ سپریم کورٹ اگر اب تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی فریقوں سے انتخابات کے لئے امن و امان کی ضمانت طلب کر رہی ہے تو اس سے کم از کم یہ تاثر زائل کیا جا سکے گا کہ سڑکوں پر ہلڑ بازی کے بعد تحریک انصاف کے لیڈر عدالتوں کی پناہ میں اپنے آرام دہ گھروں کو واپس چلے جائیں تاکہ کسی نئے فساد کی منصوبہ بندی کرسکیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں سیاسی معاملات کو سیاسی فریقین کے درمیان طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس وقت تک تحریک انصاف اور حکومتی پارٹیاں مفاہمت اور اتفاق رائے کے لیے کوئی تدبیر کرنے سے انکار کرتی رہی ہیں۔ سیاسی فریقین کو تمام تجزیہ نگاروں اور سول سوسائٹی کے ارکان کی جانب سے مل بیٹھنے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا جاتا رہا ہے۔ اب اگر سپریم کورٹ بھی سیاسی تنازعہ میں فریق بننے سے گریز کا راستہ اختیار کرے تو کم از کم یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فوج کی طرح عدلیہ بھی سیاسی فیصلوں میں معاونت کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ طریقہ ملک میں جمہوری عمل کے لیے رجحان ساز اقدام ثابت ہو سکتا ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں