دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان ، خطرناک سے خطرناک ترین تک
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
کوئی بھی عمران خان سے لاکھ اختلاف کرے لیکن عمران خان کی ایک بات سے اتفاق کرنا انصاف کی بات ہو گی کہ عمران خان خطرناک ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ہر کوئی عمران خان کے خطرناک ہونے کے الگ الگ معنی نکالتا ہے۔ کسی کے لئے عمران خان ' پی ڈی ایم' کے لئے خطرناک ہے ، کوئی اسے مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم حکومت کے لئے خطر ناک سمجھتا ہے، کوئی اسے نواز شریف اور زرداری کے خاندانوں کے لئے خطرناک سمجھتا ہے، کوئی اسے دنیا بھر کے اسلام مخالفوں کے لئے خطرناک سمجھتا ہے، کوئی اسے اداروں کے لئے اور کئی ایسے بھی ہیں جو عمران خان کو پاکستان کے لئے خطرناک تصور کرتے ہیں۔

ملک کے معروف قلمکار، دانشور وجاہت مسعود صاحب نے تو عمران خان کے خطر ناک ہو نے کی ایک انوکھی تشبیہ دریافت کرتے ہوئے عمران خان کے خطرناک ہونے کو 1974میں ریلیز ہونے والی فلم ' خطرناک ' سے تعبیر کر دیا ہے، جس ' خطرناک' فلم میں شامل ہوشربا ڈانس نے اس وقت کے نوخیز جوانوں کے جذبات کو یوں جھنجھوڑا کہ ان کے جسموں میں روحیں بھی تڑپ کر رہ گئی تھیں۔اب یہ فیصلہ کوئی اعلی سطحی انصاف کا فیصلہ کرنے والا کوئی فورم ہی کر سکتا ہے کہ عمران خان زیادہ خطرناک ہے؟1974میں ریلیز ہونے والی فلم ' خطرناک' یا اس فلم میں شامل ڈانس زیادہ خطرناک ہیں؟ عام شہری کی فہم و فراست اور علم و یقین اس بات کا تعین کرنے سے قاصر ہے کہ ان تینوں میں زیادہ خطرناک ہونے کے اعزاز کا حقدار کون ہو سکتا ہے۔

عام شہری تو سالہا سال بلکہ عرصہ دراز اسی تصور کے غرور میں مدہوش رہے کہ پاکستان اپنے دشمن ممالک کے لئے خطرناک ہے، اسلام کا قلعہ ہونے کے ناطے دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتوں کے لئے خطرناک ہے،پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والی عالمی قوتوں کے لئے خطرناک ہے۔ لیکن برا ہو کہ جب سے دشمن سے سرحد کے بجائے ملک کے اندر برسر پیکار ہونے کی پالیسی اپنائی گئی، اس وقت سے پاکستان و اسلام دشمنوں کے لئے پاکستان کے خطرناک ہونے کا بڑی محنت اور ریاضت سے تخلیق کیا گیا تصور زمین بوس ہو گیا اور اب اکثر شہری اس بات پہ ہی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا جو بھی دشمن ہے وہ کہیں باہر نہیں بلکہ ملک کے اندر ہی موجود اور سرگرم ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے اندر ایک نئے خطرناک کی تخلیق کی گئی تا کہ وہ ملک کے اندر خطرناک عناصر کے لئے خطرناک ثابت ہو سکے۔ شروع میں تو اس خطرناک نے تمام سیاسی عناصر کو اپنی خطرناکی سے خوفزدہ کرتے ہوئے پسپائی اختیار کرنے پہ مجبور کر دیا ۔اس خطرناک کو دشمن کو شکست دینے کے عزم کے ساتھ حکومت میں لایا گیا ، تاہم خطرناک کی یہ نئی قسم حکومت میں آتے ہوئے ملک کو ہی یوں ڈرانے لگی کہ ملکی اقتصادیات بھی خوفزدہ ہو کر تیزی سے پسپائی اختیار کرنے لگی ۔خطرناک کی نئی تخلیق کردہ قسم ملک کے سابقہ حکمران دو خاندانوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ذمہ داری، عزم اور نعرے کے ساتھ سرگرم ہوئی تھی لیکن سابق حکمران خاندان اس تخلیق کردہ خطرناک سے زیادہ خطرناک نکلے کہ نہ تو تخلیقی خطرناک ان کو کیفر کردار تک پہنچا سکا اور نہ ہی ان سے اپنی حکومت کو منہدم کئے جانے سے روک سکا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ حکومت سے نکالنے جانے کے بعد تخلیق کردہ خطرناک زیادہ بلکہ واقعی خطرناک ہو گیا۔

تخلیقی خطرناک اس لئے بھی زیادہ خطرناک ہو گیا کہ اب وہ اقتدار کے پردے کے پیچھے پوشیدہ ، حاکمیت کی غلام گردشوں کے رازوں سے بھی واقف ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خطرناک کو اپنی حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی معلوم ہو گیا اس کی حکومت کے خاتمے میں کس خطرناک عالمی طاقت کا ہاتھ ہے۔لیکن '' میڈ ان پاکستان '' خطرناک اس معاملے میں بھی اسی لئے ناکام رہا کہ اس کے اصل خطرناک دشمن ملکی سرحدوں کے باہر نہیں بلکہ ملک کے اندر ہی موجود تھے۔یہی وجہ رہی کہ مقامی ساختہ خطرناک نے رجوع کرتے ہوئے عالمی سطح کے خطرناک سے سلسلہ انسیت بحال و استوار کر لیا۔

اب بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان خطرناک نہیں، تو اس کو اپنے علم پہ ماتم ضرور کرنا چاہئے۔ کیا عمران خان کے خطرناک ہونے کی حقیقت سے انکاری یہ نہیں دیکھتا اور سمجھتا کہ عمران خان کے خلاف اول تو مقدمات قائم ہی نہیں ہوتے، اگر ہوتے بھی ہیں تو فراہمی انصاف کے فورم ملتمس ہوتے ہوئے علامہ اقبال کے شعر کے اس مصرعے کی تفسیر بن جاتے ہیں کہ''خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے''، کیونکہ شاید وہ جانتے ہیں کہ خطرناک کی خودی اتنی بلند ہے کہ جتنے کی علامہ اقبال حسرت کرتے رہے کہ '' خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے''۔

یہاں ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اب عمران خان کو زیادہ خطرناک قرار دیا جائے یا اس'' خدا ''کو جو عمران خان کی خودی کو اتنا بلند مقام عطا کرتا ہے کہ تخلیقی خطرناک کے خلاف کوئی بھی بات '' بتا تیری رضا کیا ہے'' تک آ کر ٹھپ ہو جاتی ہے۔خطرناک کے ان تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد بھی ایک خطرناک بات یہ رہ جاتی ہے کہ '' دیسی خطرناک'' کا مزید کہنا ہے کہ میں ہر روز پہلے سے زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہوں۔ اب بات یہ ہے کہ ویسے تو ہمارا ملک ماشا ء اللہ بہت مضبوط ہے لیکن خطر ناک جو دن بدن خطرناک سے خطرناک تر ہوتا جا رہا ہے، اس سے ڈر لگتا ہے کہ آخر خطرناک کی تان، خطرناک، مزید خطرناک، خطرناک تر اور خطر ناک ترین ہونے کے بعد کہاں پہنچ کر ٹوٹے گی؟ ٹوٹے گی بھی یا عمران خان کے لئے خطرناک ترین سے بھی آگے کا کوئی لفظ ایجاد کرنا پڑے گا؟بہر حال ہمیں تو اس دن سے ڈر لگتا ہے کہ جب عمران خان یہ بیان دینا شروع کر دیں گے کہ اب میں خطرناک ترین ہو چکا ہوں۔
بقول علامہ اقبال
خِردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے


واپس کریں