دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئین سے منحرف عمران خان اقتدار میں آ کر زیادہ خطرناک ہوگا!
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے متنبہ کیا ہے کہ انہیں دیوار سے نہ لگایا جائے ورنہ وہ ایک کال دیں گے اور حکمرانوں کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اس سے پہلے وہ احتجاجی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کرچکے ہیں کہ ’وہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں‘ ۔ حیرت کا مقام ہے کہ ملک کے دو بڑے صوبوں میں حکومت کرنے والی پارٹی کا لیڈر اور اپنے ہی دعوؤں کے مطابق مقبولیت کی معراج پا جانے کے باوجود عمران خان کو بدستور انتباہ دینے اور دھمکی آمیز طرز بیان اختیار کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔عمران خان نے آج بہاولپور بار میں خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے کارکنوں کو جہاد کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ ’خود کش حملے‘ کرنا جہاد نہیں ہے بلکہ انصاف کے لئے انقلاب برپا کرنا اصل جہاد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے لوگوں کو جہاد کا حقیقی مفہوم سمجھاؤں گا۔ عوام کو ملک میں انصاف کا انقلاب برپا کرنے کے لئے جد و جہد کرنا ہوگی۔ یہی اصل جہاد ہے۔ عمران خان کی طویل اور الجھی ہوئی تقریروں سے اگر کوئی سادہ سا مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ ’اس وقت پاکستان تو کیا دنیا میں ان سے زیادہ راست باز اور عدل و انصاف کے راستے پر چلنے والا کوئی نہیں ہے‘ ۔ ان کا لوگوں کو یہی پیغام ہوتا ہے کہ صرف تحریک انصاف اور عمران خان کی حمایت کرنے والے ہی راہ راست پر ہیں، باقی سب گمراہ ہیں۔

یہ افسوسناک پیغام کسی حد تک ملک کے ایک بڑے طبقے میں قبول بھی کیا جا رہا ہے لیکن کیا یہ سیاسی حکمت عملی موجودہ ’کمزور‘ حکومت کو انتخاب کروانے پر مجبور کر سکتی ہے؟ عمران خان نے ایک بار پھر نئے انتخابات کا مطالبہ دہراتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مستحکم حکومت کے بغیر معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی، اس لئے انتخابات کروا کے ایسی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی جائے جسے عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ سوال یہ ہے کہ جب کسی انتخابی نتیجہ کے فیصلے کا پہلے سے اعلان کر دیا جائے اور جب عمران خان اور ان کے پروپیگنڈا سیل نے یہ بات طے کرلی ہے کہ کسی بھی انتخاب میں اگر تحریک انصاف کو واضح کامیابی حاصل نہیں ہوتی، تو وہ انتخابات جائز اور درست نہیں ہوں گے۔ اس صورت حال میں عمران خان خود ہی جواب دیں کہ کوئی گئی گزری اور بقول ان کے اسلام آباد تک محدود ہو جانے والی حکومت بھی آخر کیوں کسی ایسے انتظام کی طرف جانا چاہے گی جس میں اس کی اپنی شکست نوشتہ دیوار ہو۔ عمران خان اگر واقعی انتخابات ہی کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں تو انہیں تمام سیاسی پارٹیوں اور اسٹیک ہولڈرز کو یہ یقین تو دلانا پڑے گا کہ انتخابات کا جو بھی نتیجہ آئے، وہ خوش دلی سے اسے قبول کریں گے اور انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی حکومت قائم ہو تحریک انصاف اپنی سیاسی نمائندگی کے حساب سے اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے گی۔

تحریک انصاف موجودہ انتظام میں یہ کردار ادا کرنے پر راضی نہیں ہے۔ اسے قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر عمران خان جمہوری اصول کو پیش نظر رکھیں تو وہ اب بھی قومی اسمبلی میں واپس جاکر آئین کے تجویز کردہ پارلیمانی نظام کے تحت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ معمولی اکثریت کی بنیاد پر کھڑی شہباز شریف کی حکومت، تحریک انصاف کی طرف سے ایسے کسی بھی سیاسی اقدام کا دباؤ برداشت نہیں کرسکے گی اور اسے جلد یا بدیر شدید مزاحمت و ہزیمت سے مجبور ہو کر انتخابات کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ یعنی عمران خان جو مقصد گزشتہ چار ماہ سے جلسے جلوسوں، بیان بازی، دھمکیوں اور انتباہ جاری کرنے کے ہتھکنڈوں سے حاصل نہیں کرسکے، اسے قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کی موجودگی کے ذریعے آسانی سے حاصل کر سکتے تھے۔ اس لئے عمران خان کے اس مطالبہ کی سنجیدگی کے بارے میں غور کرنا ضروری ہے کہ کیا وہ واقعی ملک میں نئے انتخابات چاہتے ہیں یا ’نیوٹرلز‘ کے تعاون سے ایک بار پھر ’نامزد‘ ہو کر وزارت عظمی کے ’تخت‘ پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔

عمران خان جس طریقے سے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ انہیں اس منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتا۔ پہلے تو انہیں یہ طے کر لینا چاہیے کہ انہیں ملکی عسکری اداروں کے تعاون سے اقتدار چاہیے یا وہ یہ چاہتے ہیں کہ تمام غیر منتخب ادارے کسی بھی منتخب حکومت کے کنٹرول میں ہوں۔ پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی پارٹی اس حوالے سے جو فیصلہ کرے، فوج ہو یا کوئی دوسرا ادارہ، وہ کسی حجت کے بغیر اس کا حکم ماننے کا پابند ہو۔ اگر عمران خان اس اصول کو مان لیں تو انہیں اس اصول کو بھی ماننا پڑے گا کہ ملکی پارلیمنٹ ہی سپریم ہے اور اس ایوان میں جس پارٹی یا گروہ کو اکثریت حاصل ہوجاتی ہے، وہی حکومت بنانے کا اہل ہے۔ اس اصول کے تناظر میں دیکھا جائے تو شہباز شریف نے ایک آئینی طریقہ سے پہلے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروائی پھر قومی اسمبلی میں ملنے والی اکثریت کی بنیاد پر خود وزیر اعظم بن بیٹھے۔ عمران خان تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتے دیکھ کر اس حد تک بد حواس اور بددل ہو گئے کہ انہوں نے اپنے تمام ارکان اسمبلی کو اجتماعی استعفے دینے کا حکم دیا۔ اس طرح پارلیمنٹ کے ذریعے سیاسی اثر و رسوخ کا راستہ ترک کر دیا۔

اب اگر وہ اسی راستہ کو اختیار کر کے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں انتخابات کا مطالبہ کرنے کے ساتھ، یہ یقین دلانا چاہیے کہ وہ آئینی ’فیئر پلے‘ اور سب کے لئے مساوی مواقع کے اصول کو مانتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی پارٹی کو ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنا پڑے گا جس میں آئین کی بالادستی کو مقدم رکھا جائے اور اس کی خلاف ورزی کی بات کرنے والے کو مسترد کیا جائے۔ کیا عمران خان یہ یقین دہانی کروا سکتے ہیں؟ اقتدار حاصل کرنے کے جس جنون کو عمران خان ’انصاف کی حکمرانی‘ قرار دے رہے ہیں وہ ایک ایسے طرز عمل پر استوار ہے جو ملکی آئینی انتظام کو ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ اسی لئے کبھی وہ فوج کو غیر جانبداری ترک کر کے، دوبارہ انہیں اقتدار میں لانے کے لئے کردار ادا کرنے کی بات کرتے ہیں، کبھی تحریک انصاف کے کارکنوں کو جہاد کے ذریعے انقلاب لانے پر آمادہ کرتے ہیں اور کبھی اسلام آباد کا گھیراؤ کر کے حکومت کو بھگانے کے دعوے کرتے ہیں۔ عمران خان خود ہی بتا دیں کہ ان میں کون سا طریقہ ملکی آئین پر کامل یقین و اعتماد کا پیغام دیتا ہے؟

عمران خان نے 9 اپریل کو عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے ساتھ ہی آئین پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تھا۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت کا ساتھ دینے والی چھوٹی پارٹیاں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلہ نہ کرتیں تو کوئی بھی ’غیر ملکی سازش، فوج کا نیوٹرل ہوجانا یا درپردہ جوڑ توڑ‘ کا کوئی ہتھکنڈا مخالف پارٹیوں کو کامیاب نہیں کروا سکتا تھا۔ اتحادی پارٹیاں عمران خان کے سیاسی ساتھیوں کو توڑنے میں کامیاب ہو گئیں کیوں کہ تحریک انصاف اقتدار میں ہونے کے باوجود ان پارٹیوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ یہ سادہ سا حساب کا سوال ہے جسے عمران خان اپنے طور پر یا کسی مصاحب کی مدد سے معمولی جمع تفریق کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں۔

یا پھر ملکی آئین کی تفہیم کا سادہ سا نکتہ ہے جسے ان کے ساتھیوں میں شامل کوئی بھی وکیل آسانی سے سمجھا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں جب کسی شخص کو اکثریت کی حمایت حاصل نہ رہے تو ملک کی سب سے بڑی عدالت اور فوج کی تمام طاقت بھی اسے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہیں رکھ سکتی۔ اب یہ کس اصول کی بنیاد پر تسلیم کیا جائے کہ چھوٹے سیاسی گروہ جب تک تحریک انصاف کی حمایت کرتے ہوئے عمران خان کے وزیر اعظم رہنے میں معاون تھے تو سب کچھ قانونی و آئینی تھا لیکن جب ان گروہوں نے عمران خان کی بجائے شہباز شریف پر اعتماد کرنے کا فیصلہ کیا تو اسے سازش اور ملکی خود مختاری پر سودے بازی قرار دیا جائے۔

تحریک انصاف اور عمران خان ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کر لیں کہ انہیں آئینی راستہ ہی اختیار کرنا ہے یا وہ اس راستہ کو محض نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اور حقیقت میں وہ اسی غیر آئینی، غیر اخلاقی اور عوام دشمن راستے سے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے وہ 2018 میں وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اب اس بات کی تصدیق تو خود عمران خان بھی کرچکے ہیں کہ انہیں کیسے اقتدار حاصل ہوا تھا اور انہوں نے وزیر اعظم رہنے کے لئے فوج اور ایجنسیوں کے کیسے کیسے ناز نخرے اٹھائے تھے۔ اگر یہ سارے طریقے ہی قانون اور انصاف کا وہ راستہ ہے، جسے پانے کے لئے عمران خان اب پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ’جہاد‘ کے لئے تیار کر رہے ہیں تو انہیں دو باتیں پلو سے باندھ لینی چاہئیں :

1) یہ قانون کی بالادستی اور انصاف کے حصول کا راستہ نہیں ہے بلکہ یہ طریقہ ملکی آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ آئین فوج یا کسی بھی ادارے کو انتخابی عمل میں شامل ہونے، کسی ایک سیاسی گروہ کی حمایت میں مہم جوئی کرنے، الیکٹ ایبلز کو ایک لیڈر کی وفاداری پر آمادہ کرنے اور اس طرح کسی غیر نمائندہ شخص کو ملک پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
2) فوج یا نظام عمران خان یا کسی سیاسی لیڈر کی دھمکیوں اور بلیک میل کرنے کے ہتھکنڈوں سے مجبور ہو کر متعلقہ شخص کے لئے اقتدار کا راستہ ہموار نہیں کرے گا۔ عمران خان اگر سمجھتے ہیں کہ بڑے بڑے جلسوں یا سیاسی محاورہ میں مذہبی اصطلاحات شامل کر نے سے وہ اداروں کو اپنی حمایت پر مجبور کر لیں گے تو یہ حکمت عملی ناکام ہوگی۔ دباؤ و استحصال پر اترا ہوا کوئی سیاسی لیڈر کسی گئی گزری اسٹبلشمنٹ کو بھی قبول نہیں ہوتا۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ تو ابھی تک بہت طاقت ور ہے اور سیاسی فیصلوں میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

بدنصیبی سے عمران خان نہ تو ملکی آئین اور اس کے تحت قائم اداروں کو مانتے ہیں اور نہ آئینی طور سے منتخب حکومت کے ساتھ تعاون کا کوئی راستہ تلاش کرنے پر آمادہ ہیں۔ وہ الیکشن کمیشن پر بداعتمادی کا اظہار کرتے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر کو ’پالتو‘ قرار دیتے ہیں۔ اس صورت میں تو انہیں ملکی آئینی انتظام کو تبدیل کرنے کے لئے مہم جوئی کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی مرضی کا آئین نافذ کروا سکیں۔ اگر عوام کی اکثریت ان کی رائے سے اتفاق کرتی ہے تو یہ تبدیلی عین ممکن ہے لیکن اگر وہ چور دروازے سے اقتدار حاصل کر کے فسطائی ہتھکنڈوں سے ملکی آئین کو جزو معطل بنانا چاہتے ہیں تو عمران خان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔اس حالت میں تو عمران خان اقتدار کے باہر بھی خطرناک ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی خطرناک ہی رہے گا۔ بلکہ اپنے غیر آئینی اور منتقمانہ مزاج کی وجہ سے وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کے آئینی پارلیمانی طرز حکومت اور نظام انصاف کے لئے زیادہ بڑا خطرہ بن جائے گا۔ ملک کا جو بھی شہری یا ادارہ اس خطرے کو سمجھتا ہے اور محسوس کرتا ہے وہ عمران خان کے راستہ روکنے کی اپنی سی کوشش ضرور کرے گا۔ اب یہ فیصلہ لوگوں کو ہی کرنا ہے کہ وہ اس خطرے کو ووٹ کے ذریعے مسترد کرتے ہیں یا نظام قانون ملک کو اس مشکل سے نجات دلاتا ہے۔

سید مجاہد علی
(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں