دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یرغمال شدہ رائے عامہ اور درپیش خطرات
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
عوام کی طرف سے پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے پر اسحاق ڈار پر اور موجودہ حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے , لیکن اتنا سوچنے اور بتانے پر کوی تیار نہیں کہ آخر موجودہ حالات میں دیگر آپشن کیا ہو سکتے تھے۔آئی ایم ایف سے موجودہ معادے کی شرائط سابق تحریک انصاف کی حکومت نے طے اور تجویزو منظور کی تھیں اور جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کو کامیاب ہوتے دیکھا تو آئی ایم ایف سے اپنی ہی طے کردہ شراط کی خلاف ورزی کرتے ہوے قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے حکومت چھوڑ دی , یہی وہ صورت حال اور اقدامات تھے, جن کے بار ے میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے کھل کر کہا کہ ہم نے آنے والی حکومت کے راستے میں بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں ۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ،تمام دوست ممالک جن سے کچھ بھی مالی امداد کی امید ہو سکتی تھی ، وہاں کے دورے کیے گے اور مدد حاصل کرنے کی ہرممکن کوششیں کی گئیں لیکن ہر ملک نے اور مالیاتی ادارے نے اپنی امداد کو آئی ایم ایف کے پروگرام کی منظوری کے ساتھ مشروط کیا ۔گویا اب آئی ایم ایف کی سخت ترین شراط من و عن تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوی راستہ باقی نہ رہا ۔

ملک کے لیے اس گھمبیر صورتحال میں پی ٹی آئی قیادت عجیب پراسرار سرگرمیوں جن کو اقتصادی دہشت گردی اور تخریب کاری کہنازیادہ مناسب ہو گا ، میں ملوث نظر آئی۔اس سلسلہ میں پی ٹی آئی کے تیمور جھگڑا اور شوکت ترین کی آڈیو کالز اور خطوط منظر عام پر آنے،جن میں واضع طور پر آئی ایم ایف کو ایسے خطوط لکھے جانے کاذکر تھا کہ پاکستان کو ملنے والی امداد/ قرضہ کا راستہ روکاجا سکے۔اس کے ساتھ تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے تواتر کے ساتھ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے اعلانات کی باقادہ منظم مہم چلائی گی اور اس کے ساتھ بیرونی ممالک میں مقیم تحریک انصاف کے حامیوں کی طرف سے اس سلسلے میں باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والی قرضے کی قسط رکوائی جا سکے ۔حیرت انگیز طور پر اس مہم میں عمران خان نیازی کی سابقہ اہلیہ محترمہ جمائمہ گولڈ سمتھ اپنے مذہبی اور خاندانی اثر و رسوخ کو استعمال کرتی دکھائی دیں،بلکہ ان کی طرف سے پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف نفرت آمیز پراپیگنڈہ میں ملوث چند بھگوڑے سابق افسران کی واضع طور پر سرپرستی اور حمایت بھی دکھائی دی ۔

یہاں تشویشناک امر یہ ہے کہ کیا پاکستان کی عوامی دانش اس حد تک بانجھ ہوچکی ہے،جوان حالات، واقعات اور واضع شواہد کو بھی ان کے درست اور حقیقی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہی اور حالات کے سیاق وسباق اور حقاق کو نظر انداز کرتے ہوے تنقید اور طنزیہ مخالفت کا ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا جا رہا ہے۔گویا ان تشویشناک بلکہ خطرناک حالات کا حل یہی تنقید ہو ۔اس مخالفانہ مہم کو تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے ساتھ ساتھ۔پاپولر میڈیا اور سوشل میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل ہے ۔ مختلف چینلز پربیٹھے بزرجمہر شدید تنقید تو کر رہے ہیں لیکن کوئی ایک بھی اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کوی متبادل حکمت عملی بتانے یا تجویز کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ گویا ان کی نظر میں اسحاق ڈار اور موجودہ حکومت پر تنقید و تشنیع ہی ان مشکلات کا حل ہے ۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ عوامی رائے عامہ کو باقادہ ایک منصوبے کے تحت ایک مخصوص سمت میں موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہاں یہ امر قابل تشویش ہے , کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں مخصوص اقدامات سے قبل جن کی طرف سے عوامی رائے عامہ کو کوئی سمت دی جاتی تھی ۔اس بار تبدیلی یہ ہے کہ اس عمل میں کچھ دیگر بیرونی طاقتیں بھی سرگرم دکھائی دے رہی ہیں اور ان کی طاقت اور اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ملک کے ان معاملات میں روایتی ماہر و اجارہ دار بھی حیرت انگیز طور پر بے بس اور اپنی صفائیاں دیتے دکھائی دینے لگے ہیں ۔ پاکستان کے منظر نامے میں روایتی طور پر حاوی ایسے مقتدر حلقوں کی بے بسی اور اپنے ہی سابق افسران کی طرف سے بیرون ملک و اندرون ملک تنقید و شدید نفرت انگیز پراپیگنڈہ کے جواب میں ایک طویل خاموشی ،شاید کسی بے بسی کا اشارہ ہے۔ ورنہ یہاں پاکستان کے قانون اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کسی تنقید یا سوال اٹھانے پر جو سلوک کیا جاتا ہے، علی وزیر اس کی واضع مثال ہے ۔

دوسری طرف اندرون ملک وبیرون ملک چند سابق افسران کی طرف سے نام لے لے کر جھوٹے اور شدید نوعیت کے الزامات پر کسی قبرستان جیسی خاموشی قابل غور ہے ۔طاقتور ترین حلقوں کی یہ خاموشی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اس بار کھیل کے کھلاڑی کوئی اور،ان سے بھی طاقتور، بھی کھیل میں شامل ہیں ۔اس کی علامت وہ دبی دبی پراسرار آوازیں ہیں ،جو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے ذکر کو پاکستان کی حالیہ مالی مشکلات کے ساتھ جوڑ کر ،ان دفاعی اثاثوں سے محرومی کو پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل کے حل کے طور پر دکھا اور تجویز کر رہی ہیں۔لیکن اس ضمن میں ان طاقتوں کی اخلاقیات اور وعدوں کی حقیقت ہمیں عراق کی طرف سے عالمی طاقتوں کی شرائط تسلیم کرنے کے باوجود ان کی طرف سے عراق کی تباہی و بربادی اور اس کی روایتی طاقت تک کی تباہی اور ایران کے ساتھ اس کی طرف سے عالمی اداروں کے مطالبے پر ایٹمی پروگرام پر پیش رفت کو روک دینے کے باوجود ،شدید نوعیت کی پابندیوں اور ان کے نتیجے میں وہاں کے عوام کی مشکلات کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔گویا یہ بھی کوئی ضمانت نہیں کہ اگر ہم اپنے دفاعی اثاثوں کے ضمن میں ان خون آشام عالمی طاقتوں کے مطالبات من و عن مان بھی لیتے ہیں تو کیا وہ ہمارے ساتھ تصدیق کے بہانے وہی سلوک نہیں کریں گے, جو انہوں نے عراق اور ایران کے ساتھ کیا تھا ۔

ان ہی حالات میں بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کے لیے لئے خط کو نہ جانے کیوں اہمیت نہیں دی جا رہی اور اس کے مضمرات اور خطرات کو عوام کے سامنے رکھنے کے بجائے عوام کی توجہ کو اسحاق ڈار اور موجودہ حکومت کی مبینہ ناقص اقتصادی کارکردگی کی طرف مبذول کیا اور رکھا جا رہا ہے، اور تشویشناک امر یہ ہے کہ ہمارا پاپولر میڈیا اس مہم میں ہراول کا کردار ادا کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت وسیع پیمانے پرجہالت اورمختلف تعصبات کا شکار بنائے گئے عوام ان درپیش خطرات کا ادراک تک کرنے سے عاری بنا دیے گئے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جنھیں قوم بننا چاہیے تھا وہ ,عوام بلکہ جاہل , بے شعور اور مختلف قسم کے تعصبات کا بری طرح شکار ہجوم بنا دیے جا چکے ہیں ۔

ہمارے عوام کی ایک قابل ذکر تعداد کی طرف سے ایسا ظاہر کیا جارہا ہے،گویا فوری انتخابات اور تحریک انصاف یعنی عمران خان نیازی کو مسند اقتدار پر لا بٹھانا ہی گویا ان درپیش معاشی مسال کا واحد اور شافی حل ہے ۔یہاں عوام اور میڈیا میں سے کوئی اتنا بھی غور کرنے کی زحمت نہیں کر رہا کہ عمران نیازی صاحب نے اپنے مستقبل کے پروگرام اور لائحہ عمل کے بارے میں ایک لفظ بھی فرمایا ہو ۔ان کی تمام تقاریر حسب معمول مخالف سیاسی عناصر اور لیڈر شپ پر تند و تیز تنقید ، دھمکیوں اور الزامات کے ساتھ ساتھ گاہے نبگاہے اسٹیبلشمنٹ پر مختلف طریقوں سے دبائو ڈالنے پر منحصر ہے ۔ وہ غلطی سے بھی یہ نہیں بتاتے کہ اگر وہ اقتدار میں آ گئے تو وہ کس طرح اور کیا تبدیلیاں لائیں گے ، اور کس طرح ملک کی اقتصادی حالت کو درپیش شدید بحران سے باہر نکالیں گے۔وہ اپنی تقاریر میں انتہائی فنکاری سے قوم سے مستقبل کے بار ے میں کوئی وعدہ نہیں کرتے دکھائی دیتے ۔ درحقیقت قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر کے اور عوام میں ان مجوزہ انتخابات کو موجودہ اقتصادی مشکلات کا حل بتا کر دراصل قوم کومزیدگمراہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اگر انھیں اقتدار مل بھی گیا تو انہوں نے معاشی حالات کی تمام تر زمہ داری موجودہ حکومت کے ذمہ ڈال کر ان ہی پالیسیوں کو یہ کہہ کرجاری رکھنا ہے کہ یہ تو سابق حکومت عالمی اداروں کے ساتھ زیر ضمانت معاہدہ کر چکی ہے ۔ لہذا ان معاہدوں کو جاری رکھنا حکومت کی مجبوری ہے۔گویا انتخابات جن کوامرت دھارا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ بھی فوری طور پر موجودہ مسائل کا اس کے علاوہ اور کوئی حل پیش نہیں کرتے کہ اس صورت میں تمام اقدامات کی زمہ داری عوام کے ووٹ کے سر ڈال دی جائے گی ۔

یہ صورت حال پاکستان کے باشعور عوام کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جس طرح خام رائے عامہ کو ایک مخصوص سمت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے تو یہ ہجوم جزبات کا شکار بن کر ہر قسم کے نقصان دہ اقدامات تو کر سکتا ہے لیکن بعد میں یہ ہجوم خود اس نظر آنے والی تباہی کی ذمہ داری کسی طرح نہیں قبول کرے گا ، لہذا یہ اہل دانش و بصیرت کا فرض ہے کہ وہ قوم کو اصل حالات اور خطرات سے آگاہ کریں ۔

واپس کریں