دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا عدلیہ بھی کسی غلطی کی ذمہ دار ہے؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
عمران باجوہ تنازعہ کے نتیجے میں درپردہ سازشوں کے جو پہلو عوام تک پہنچائے گئے ہیں، ان سے کم از کم یہ واضح ہو گیا ہے کہ عمران خان کو کامیاب کروانے کے لئے نواز شریف کو نااہل کروانا اہم تھا۔ اس منصوبہ کی پلاننگ جسے اب عمران پراجیکٹ یا ہائبرڈ نظام کا نام دیا جاتا ہے، سابق آرمی چیف کی نگرانی میں آئی ایس آئی میں کی گئی اور اسے کامیاب کروانے کے لئے اعلیٰ عدلیہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔اب یہ باتیں اس حد تک صفائی کے ساتھ سامنے آ چکی ہیں اور اس المیہ ڈرامہ کے کرداروں نے براہ راست یا بالواسطہ طور سے اتنے اعترافات کیے ہیں، کہ ان پر اعلیٰ عدالتوں کی خاموشی سے نہ صرف اس ادارے پر پہلے سے متزلزل اعتبار کمزور ہوا ہے بلکہ یہ سوال بھی سامنے آیا ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے بار بار کیا جانے والے ان وعدوں کا کیا ہوا جس میں نظریہ ضرورت کو دفن کرنے اور ملک میں تمام معاملات آئین و قانون کے مطابق طے کرنے کا وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔اگرچہ اس وعدہ کا آغاز عدلیہ بحالی تحریک کے اہم کردار اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ریمارکس سے ہوا تھا لیکن بعد میں بھی اس دعوے کو دہرایا جاتا رہا ہے کہ عدالتیں کسی دباؤ میں آئے بغیر آئین کی حفاظت کریں گی۔ بدنصیبی سے آج یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے ججوں نے ان وعدوں کا لحاظ کیا ہوتا اور واقعی آئین سے وفاداری کے حلف کا احترام کیا جاتا تو ملک کو موجودہ سیاسی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

سیاسی اختلافات کو شخصی نفرت اور اور گروہی ضرورتوں کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کا جو ماحول اس وقت دیکھنے میں آتا ہے، اس کی ذمہ داری یا تو سیاسی لیڈروں پر عائد کی جاتی ہے یا اب اسٹبلشمنٹ کو سیاسی جوڑ توڑ کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کہانی کے ٹکڑے ملا کر دیکھا جائے تو یہ سازشیں عدالتوں کے بعض ججوں کی مداخلت کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ اس لئے موجودہ بحران کے عوامل پر غور کرتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں کے بعض ججوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اعلیٰ عدلیہ کے اس منفی کردار کا آغاز سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے وقت سے ہو گیا تھا۔ عدلیہ بحالی تحریک کی وجہ سے انہیں ایک آمر کے سامنے کلمہ حق کہنے پر ہیرو کا درجہ دیا گیا اور قوم نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔

بعد از وقت اس تحریک کے بارے میں سامنے آنے والے حقائق سے قطع نظر اس بنیادی اصول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افتخار چوہدری کو پرویز مشرف جیسے فوجی آمر کے مقابلے میں جو پذیرائی حاصل ہوئی، اس میں نہ تو افتخار چوہدری کی کسی اعلیٰ قانونی لیاقت یا قومی خدمت کا کوئی تعلق تھا اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی اصول پر کوئی واضح موقف اختیار کیا تھا۔ ان کے کریڈٹ میں کوئی ایسا تاریخ ساز فیصلہ بھی نہیں تھا جس سے یہ قیاس جاسکتا کہ وہ واقعی آئین و قانون کی بالادستی پر کامل یقین رکھتے ہیں۔

پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا اور ایک فوجی آمر کی خدمت گزاری کا عہد کیا۔ اس کے بعد وہ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اس بنچ کا بھی حصہ تھے، جس نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دیا تھا۔ یعنی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے وہ ’اختیار‘ ایک ایسے فوجی کے حوالے کر دیا جس نے اپنے عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور ملکی آئین کو پامال کر کے ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قبضہ کیا اور جو اختیار خود عدالت عظمی کے پاس بھی موجود نہیں تھا۔ اس طریقے کو آئینی سرقہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس پس منظر میں سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ تھی کہ پوری قوم نے ایسا داغدار ماضی رکھنے والے ایک جج کے لئے ایک آمر کے خلاف سر دھڑ کی بازی لگادی۔ اس کی بظاہر دو ہی وجوہات تھیں۔ ایک: قوم سیاسی معاملات میں فوج اور اس کے زیر نگین اداروں کی مداخلت کے خلاف اپنی شدید ناپسندیدگی کا اظہار کر رہی تھی۔ دوئم: پاکستانی عوام نے ایک چیف جسٹس کی طرف سے نام نہاد مزاحمت دکھانے کے ایک واقعہ کو ملک میں بنیادی حقوق کی بالادستی اور آئین کے احترام کی علامت سمجھ کر افتخار چوہدری پر عقیدت و محبت نچھاور کی۔

اس عزت و احترام کے لئے افتخار چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہونے کے بعد اپنا ایک ایک لمحہ آئین کی بالادستی، جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنے اور عوامی حقوق کی نگہبانی کے لئے صرف کرنا چاہیے تھا۔ ان پر لازم تھا کہ وہ یہ نیا موقع ملنے کے بعد ماضی میں کی گئی بے اعتدالیوں کا کفارہ ادا کرتے اور عوام کو ایک بار پھر یہ یقین کرنے پر مجبور نہ کر دیتے کہ انہیں صرف سیاست دان ہی بے وقوف نہیں بناتے اور صرف فوجی جرنیل ہی موقع ملنے پر ان کے حقوق پر ڈاکا نہیں ڈالتے بلکہ سپریم کورٹ کے جج بھی اپنے مفادات اور ہوس اختیار میں اندھے ہو کر قانون و آئین کو بے دریغ پاؤں تلے روندتے ہیں اور اپنی ذاتی سرخروئی کے سوا کسی دوسری بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔لہذا افتخار چوہدری نے سوٹزرلینڈ میں آصف زرداری کے مبینہ ساٹھ ملین ڈالر واپس لانے کا عذر تراش کر نہ صرف ایک منتخب وزیر اعظم کو معزول کیا بلکہ میمو گیٹ جیسے جعلی اور بے بنیاد مقدمے کو ہائی پروفائل کیس بنا کر جمہوری قوتوں کو دفاعی پوزیشن پر آنے اور فوجی جرنیلوں کو غیر معمولی طاقت فراہم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔

دیکھا جائے تو افتخار چوہدری نے چیف جسٹس محمد منیر کے بعد عدالتی اختیارات کو آئینی بالادستی اور عوامی حقوق کو پامال کرنے کی ایک نئی، خطرناک اور افسوسناک روایت کا آغاز کیا۔ حالانکہ ان کے پاس ماضی میں کی گئی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے فوجی اداروں کو یہ پیغام دینے کا جواز اور موقع تھا کہ اب قومی معاملات منتخب سیاسی نمائندوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں طے ہوں گے اور فوج سمیت ریاست کے تمام اداروں کو پارلیمانی فیصلوں کا احترام کرنا پڑے گا۔لیکن جب سپریم کورٹ ہی پارلیمنٹ کا احترام کرنے کی بجائے اپنے نام نہاد آئینی اختیارات کے نام پر مرضی کی آئینی ترامیم کے لئے دباؤ ڈالنے پر تیار ہو تو ایسے میں آئین و پارلیمنٹ محض طاقت ور کے ہاتھوں کی چھڑی بن کر رہ جاتے ہیں۔ آنے والے برسوں میں اس المناک صورت حال کا بخوبی مظاہرہ کیا گیا اور متعدد ججوں اور چیف جسٹسز نے اپنے قانونی اختیار سے ماورا فوجی ’احکامات‘ کی تکمیل کے لئے پارلیمنٹ کو مجبور اور منتخب سیاسی لیڈروں کو خوار کرنے کا راستہ اختیار کیا۔

2013 کے انتخابات میں دھاندلی پر ہونے والے احتجاج کے بعد عدالتی مداخلت کے علاوہ پاناما پیپرز کے نام سے کھڑے کیے گئے ڈرامہ میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اپنے عہدے سے ہٹانے اور تمام سیاسی حقوق سے محروم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اب یہ حقائق دستاویز ہوچکے ہیں کہ اس بات کا فیصلہ کیسے اور کہاں کیا گیا تھا۔ سابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی نگرانی میں پاناما پیپرز کی تحقیقات کے نام پر نواز شریف کی کردار کشی کے علاوہ ان کے خلاف ایسے پرانے مقدمات کو دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا گیا جنہیں عدالتی احکامات کے تحت ہی مسترد کر دیا گیا تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ احتساب عدالت میں ان مقدمات پر سماعت کی نگرانی کے لئے سپریم کورٹ کے ایک جج کو مامور کیا۔ یہ فاضل جج اب بھی عدالت عظمی کا حصہ ہیں اور اپنی سیاسی وابستگی کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاناما کیس میں اقامہ کو بنیاد بنا کر نواز شریف کو نا اہل کرنے کا جو ’سنہرا کارنامہ‘ انجام دیا گیا، اس کی مثال شاید دنیا بھر کے عدالتی فیصلوں میں تلاش کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس کے باوجود کسی سطح پر شرمندگی یا بعد از وقت احساس گناہ کا کوئی اظہار دیکھنے میں نہیں آیا۔

جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے ’عمران پراجیکٹ‘ کو کامیاب کروانے کے لئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک منصف کی بجائے ایک تابعدار اہل کار کا جو کردار ادا کیا اور جس طرح عمران خان کو نا اہلی سے بچانے کے لئے جہانگیر ترین کو قربانی کا بکرا بنانے کا اہتمام کیا گیا، وہی پاکستان کے موجودہ بحران اور مسائل کی بنیاد ہے۔ ان غیر قانونی اور غیر اخلاقی عدالتی فیصلوں میں شریک متعدد جج اب بھی سپریم کورٹ کا حصہ ہیں اور مقدمات کی سماعت کے دوران قانون و آئین کی بالادستی کے دعوے کرتے ہوئے کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی نے جب عسکری اداروں کے دباؤ کی باتیں عام کیں تو بجائے اس کے کہ ان سنگین معلومات پر نوٹس لیا جاتا اور سپریم کورٹ آئینی طاقت ور ادارے کے طور پر فوج اور آئی ایس کی سرزنش کرتی، غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں برطرف کرنے کا حکم صادر کیا۔ سپریم کورٹ آج تک اس معاملہ میں اپیل پر فیصلہ کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی اور نہ ہی اس مقدمہ کی سماعت کے دوران اس فوجی افسر کا بیان حلفی طلب کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی جس کا نام لے کر شوکت صدیقی نے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

چار سال پر محیط عمران باجوہ رومانس کے نتیجہ میں ملکی سیاست میں شکست ریخت کے لئے اعلیٰ عدلیہ کو استعمال کیا گیا اور ججوں نے جس تابعداری سے ’عمران پراجیکٹ‘ نامی ماورائے آئین منصوبے کی کامیابی میں کردار ادا کیا، اب اس کی ساری تفصیلات عام ہیں۔ لیکن انصاف فراہم کرنے کی داعی عدالت عظمی اور اس کے فاضل چیف جسٹس مہر بلب ہیں۔ اب نہ سو موٹو اختیار استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی خود احتسابی کا کوئی داخلی میکینزم استوار کرنے کی بات سننے میں آتی ہے۔

ضیا الحق کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد ’باجوہ اسکیم‘ کی کامیابی میں عدلیہ کا کردار ملک میں عوامی جمہوری حقوق، آئینی تقاضوں اور انتخابی نظام کو تباہ کرنے میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس جرم میں شریک بعض کردار اپنی بعض غلطیوں کا اعتراف بھی کر رہے ہیں لیکن ان کی حیثیت شاید ایسے افراد کی ہے جنہیں کسی شاہی نظام میں سات خون معاف والی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ایسے میں سپریم کورٹ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس صورت میں کیا یہ مان لیا جائے کہ ملکی عدلیہ پر جوشیلے ریمارکس دینے، سرکاری اہلکاروں کو بے عزت کرنے اور زیر عتاب سیاست دانوں کو نا اہل کرنے کے سوا آئین و قانون کے تحت کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی وہ کسی سابقہ یا موجودہ جج سے اس کی غلط کاریوں پر سوال کرنا ضروری ہے؟

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں