دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ٹیکنو کریٹ حکومت کا فرسودہ تجربہ تباہ کن ہو گا
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
پاکستان میں معیشت کے بعد دہشت گردی کا خطرہ اہم ترین موضوع بحث ہے۔ تاہم ان دونوں معاملات پر کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں ہے اور نہ ہی قومی سیاسی پارٹیوں میں اتفاق رائے کی کوئی صورت پیدا ہونے کا امکان ہے۔ البتہ ان سنگین مسائل کی موجودگی میں قومی سیاست میں دو نئے پہلو سر اٹھا رہے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ایک کا تعلق ان قیاس آرائیوں سے ہے کہ ملک میں طویل مدت کے لئے ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کردی جائے اور ملکی معیشت کے حوالے سے مشکل فیصلے کیے جائیں۔ عام خیال ہے کہ کوئی بھی جمہوری سیاسی حکومت عوامی رائے کے خوف میں ایسے فیصلے کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ اس لئے بظاہر اس کا حل نکالنے کے لئے یہ تجویز سامنے لائی گئی ہے کہ ماہرین پر مشتمل حکومت قائم کردی جائے جو آئی ایم ایف اور قرض دینے والے دیگر اداروں و ممالک سے مشاورت کے بعد ایسے فیصلے نافذ کرے جن کا مالی بوجھ اس ملک کے غریب عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ واضح نہیں کہ اگر واقعی ملک میں اس قسم کی کوئی غیر روایتی حکومت قائم کرنے کا کوئی منصوبہ کسی سطح پر موجود ہے تو اس کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ کیا اس مقصد کے لئے آئین میں ترمیم کی جائے گی۔ آئینی ترمیم کے لئے البتہ اس وقت کسی بھی گروہ کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے۔ تاآنکہ کسی طرح ہانک کر تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپس لایا جائے اور پھر اسے کسی غیر نمائندہ حکومت کے حق میں آئینی ترمیم قبول کرنے پر آمادہ بھی کر لیا جائے۔

اس کا دوسرا ممکنہ طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ سے کسی ریفرنس کی صورت میں اس مقصد کے لئے ’آئینی چھوٹ‘ حاصل کرلی جائے۔ یعنی ایک خاص مدت کے لئے انتخابات ملتوی کر کے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدام کا حق حاصل کیا جائے۔ ایسے میں سوال پیدا ہو گا کہ یہ ’حق‘ کسے تفویض کیا جائے گا؟ کیا موجودہ حکومت اور وزیر اعظم ایسے کسی غیر جمہوری اقدام میں کھلم کھلا حصہ دار بننے پر راضی ہوجائیں گے؟ یا پھر صدر مملکت کو اس حوالے سے قربانی کا بکرا بنایا جائے گا اور سپریم کورٹ کے خصوصی حکم سے انہیں ایک ٹیکنوکریٹ حکومت مسلط کرنے کا حق دے دیا جائے گا۔ یہ سارے سوالات ملک میں گردش کرنے والی افواہوں کے تناظر میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان مباحث، قیاس آرائیوں اور اندازوں کی روشنی میں البتہ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایسا کوئی اقدام ملک میں سسکتی رینگتی جمہوریت کے کفن میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ہو گا۔ ایک بار ملک کا پارلیمانی نظام پٹری سے اتر گیا تو پھر اسے دوبارہ آئینی جمہوری راستے پر واپس لانا ممکن نہیں ہو گا۔

اس حوالے سے جو دوسرا پہلو قابل توجہ ہے، وہ تحریک انصاف کے مستقبل اور عمران خان کے قومی سیاست میں کردار کے حوالے سے ہے۔ یہ اندازے قائم کیے جا رہے ہیں یا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی بھی معاملہ میں عمران خان کو نااہل قرار دے کر، انہیں سیاست سے ویسے ہی بے دخل کر دیا جائے جیسا کہ نواز شریف کے معاملہ میں کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اگر انہوں نے ’ہیجان پیدا‘ کرنے سے گریز نہ کیا اور الزامات کا سلسلہ اور عدم استحکام کا رویہ جاری رکھا تو کسی مقدمہ میں سزا دلوا کر جیل میں بند بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کوئی خاص روشن نہیں ہے۔ اس لئے اس امکان کو یک سر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جیسا کہ کوئی غیر نمائندہ حکومت مسلط کرنے کے قانونی، سیاسی اور سماجی اثرات مرتب ہوں گے، بعینہ ایک مقبول لیڈر کو کسی غیر سیاسی ہتھکنڈے سے میدان سے باہر کرنے کے بھی دوررس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے حالات اس قابل تو نہیں ہیں کہ ایسے کسی اقدام کے بعد فوری طور سے کسی ’عوامی انقلاب‘ کا راستہ ہموار ہو جائے لیکن بلاخوف تردید یہ بات البتہ کہی جا سکتی ہے کہ ایسے کسی بھی غیر قانونی و غیر اخلاقی اقدام سے ملکی سیاست بے چینی و پریشانی خیالی کا دور دورہ ہو گا اور ملک میں طویل المدت ہم آہنگی پیدا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

یہاں یہ جان لینا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ماضی میں وسیع تر قومی مفاد کے نام پر متعدد بار غیر جمہوری فوجی حکومتیں قائم کرنے کا تجربہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ نام نہاد ’فوجی انقلاب‘ خواہ ایوب خان نے برپا کیا یا جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف اس کی وجہ بنے لیکن ان تمام ادوار کے بارے میں دو باتیں واضح ہیں۔
ایک: ان میں ملک میں استحکام لانے اور بدعنوان سیاست دانوں کا احتساب کرنے کی بات کی گئی لیکن نہ تو استحکام پیدا ہوا اور نہ ہی بدعنوانی کا خاتمہ ہوسکا بلکہ فوجی حکومتوں نے بدعنوانی کی ایک نئی روایت کا راستہ کھولا اور ملکی سیاست میں دولت کی فراوانی انہی ادوار کی دین کہی جا سکتی ہے۔
دوئم: آمرانہ حکومتیں قائم کرنے کے باوجود کوئی فوجی حکومت ملکی معاشی یا سماجی مسائل حل نہیں کر سکی۔ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔

اس پس منظر میں یہ قیاس کر لینا خام خیالی ہوگی کہ اگر کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کی جاتی ہے اور اسے اداروں (بمعنی فوج و عدالت عظمی) کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو وہ ملکی معیشت کو مستحکم بنیاد پر کھڑی کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ آسان سی بات ہے کہ جب فوج سپریم کورٹ کے تعاون سے ملکی اقتدار پر براہ راست قبضہ کر کے حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو کسی غیر نمائندہ حکومت کے ذریعے کیسے ان تمام مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آخر ملک میں ایسے کون سے عالی دماغ موجود ہیں کو کسی جمہوری سیٹ اپ میں تو دست تعاون دراز کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے لیکن اگر زمام حکومت براہ راست ان کے حوالے کردی جائے تو وہ سب مسئلے حل کر دیں گے۔ ایسی گفتگو خود کو دھوکہ دینے اور ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ طریقہ ملکی حکومت کو ’آؤٹ سورس‘ کرنے جیسا ہو گا۔ کوئی ملک ٹھیکے پر دے کر نہیں چلایا جاسکتا۔ کسی ملک میں کوئی بھی نظام قائم ہو لیکن کسی نہ کسی طور سے اس میں عوام کی شرکت سے ہی اسے کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے۔ لیکن زیر غور تجاویز میں ملکی نظام میں عوام کی شرکت کو ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے جو کامیاب حکمرانی کے بنیادی تصور سے ہی متصادم ہے۔

عمران خان نے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد فوری انتخابات کا نعرہ بلند کیا ہے اور یہ مقصد پانے کے لئے متعدد ہتھکنڈے بھی اختیار کیے ہیں۔ حکمران اتحاد بوجوہ فوری انتخاب پر آمادہ نہیں ہے البتہ اب تک سرکاری پوزیشن یہ رہی ہے کہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد عام انتخابات کروا لئے جائیں گے۔ یہ مدت اس سال کی تیسری سہ ماہی میں مکمل ہو رہی ہے۔ اصولی طور سے موجودہ حکومت کو جون میں بجٹ پیش کرنے کے بعد عبوری حکومت قائم کر دینی چاہیے تاکہ اگست ستمبر تک عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔ لیکن ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں پھیلانے کے ساتھ ساتھ یہ پھلجھڑیاں بھی چھوڑی جا رہی ہیں کہ ملک کی موجودہ صورت حال میں شاید انتخابات کو مزید ایک دو سال کے لئے ملتوی کرنا پڑے۔ اس قسم کے اشارے مولانا فضل الرحمان سے لے کر پیپلز پارٹی تک کے لیڈر دے چکے ہیں۔ ’اندر کی خبر لانے والوں‘ کے ذریعے یہ بات بھی پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ معاشی حالات، سکیورٹی کی صورت حال اور خارجہ تعلقات کے حوالے سے حکومت کا تسلسل بے حد اہم ہے۔ اس لئے فوری انتخابات کے ذریعے اس تسلسل کو ختم کرنا ملکی مفاد میں نہیں ہو گا۔

عمران خان کی طرف سے پارلیمانی جمہوری عمل کا بائیکاٹ کرنے اور انتخابات کے نام پر ملک میں مسلسل انتشار پیدا کرنے کا رویہ قابل مذمت ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عمران خان کی سیاست کو مورد الزام ٹھہرا کر ملکی عوام کو ان کے جائز جمہوری حق سے محروم کر دیا جائے۔ عام انتخابات سال رواں کے اندر ہونے چاہئیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف پر یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں موجود نت نئی افواہوں کے موجودہ ہنگامے میں اپنی پوزیشن واضح کریں اور عوام سے وعدہ کریں کہ فوری انتخابات کے بارے میں عمران خان کا مطالبہ نہ ماننے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سال رواں کے اندر مقررہ وقت پر انتخاب منعقد نہیں ہوں گے۔ بہتر ہو گا کہ ابھی سے عبوری انتظامی حکومت کے قیام اور انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا جائے تاکہ ٹیکنوکریٹ حکومت یا انتخابات ملتوی کرنے کی افواہیں خود دم توڑ جائیں۔

اگر یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کی اسٹبلشمٹ سے لڑائی اور ملک کو درپیش دیگر مسائل کو بہانہ بنا کر عوامی تائید کے بغیر ملک پر غیر معینہ مدت تک حکومت کرنے کا کوئی راستہ نکال لیا جائے گا تو یہ غیر آئینی، غیر اخلاقی اور غیر جمہوری طریقہ ہو گا اور اسے ہر قیمت پر مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج اگرچہ غیر سیاسی ہونے کا اعلان کرچکی ہے لیکن ملکی سیاست کے حوالے سے جتنی قیاس آرائیاں میدان میں لائی جا رہی ہیں، ان میں فوج ہی کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ حالانکہ گزشتہ چار پانچ سال کے دوران فوجی قیادت نے ملکی سیاست میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے، اس کی روشنی میں سب سیاست دانوں کو مل کر ایک ایسے سیاسی انتظام کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے جس میں فوج کا کوئی کردار زیر غور نہ آئے۔بدقسمتی سے ملکی سیاست دان اگر ایسا کوئی حوصلہ مندانہ قدم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں اور بہر صورت فوج ہی کو ملکی سیاست کا اہم ترین فیکٹر بنائے رکھنے پر اصرار کرتے ہیں تو سول سوسائٹی اور ملک کے جمہوریت پسند حلقوں کو ہر قیمت پر کسی بھی غیر جمہوری انتظام کی ہمہ قسم کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے مستعد و چوکس رہنا چاہیے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں