دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قومی اتفاق رائے، غیر جانبدار فوج تو یہ کام نہیں کر سکتی
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
یوکرین روس جنگ کے تناظر میں نیا سال یوں تو پوری دنیا کے لئے نئے چیلنجز کے ساتھ شروع ہو رہا ہے۔ ایک طرف اس جنگ کے خاتمہ کے کوئی آثار نہیں ہیں تو دوسری طرف کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ عالمی معیشت اور دنیا کے شہریوں کو روس کے ساتھ اس جنگ کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ تاہم خاص طور سے اہل پاکستان کے لئے 2023 کا آغاز شدید پریشانی، مایوسی اور بے چینی کے ماحول میں ہو رہا ہے۔ دگرگوں معاشی صورت حال اور دہشت گردی کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں ملک کے لئے امید کی کوئی کرن موجود نہیں۔پاکستان کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے عام طور سے ان سے نمٹنے کے لئے قومی یک جہتی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اگر مسائل و مصائب نے آ گھیرا ہے تو ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اس مشکل سے نکلنے کی کوشش کی جائے لیکن اس وقت سیاسی اختلافات نے بحران اور تصادم کی کیفیت اختیار کر رکھی ہے۔ اشتراک و تعاون کو طعنہ سمجھتے ہوئے ہر گروہ اپنی ڈفلی بجانے پر مصر ہے۔ سیاسی بے اعتباری کی یہی صورت حال معیشت و دہشت گردی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے ملکی صلاحیت کو مسدود و محدود کرتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سخت معاشی فیصلے کیے بغیر قومی خزانہ بھرنا ممکن نہیں۔ اسی طرح یہ سچائی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جب تک ملک میں بنیادی قومی امور پر وسیع تر اتفاق رائے موجود نہ ہو، اس وقت تک نہ تو سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنا کر تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کو معمول پر لایا جاسکتا ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ افغانستان میں پناہ لینے والے دہشت گرد گروہ تحریک طالبان پاکستان نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر دہشت گرد حملوں کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں اور اسی تواتر سے حکومتی ترجمانوں کے ایسے بیانات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ پاکستانی قوم پورے عزم و اتحاد کے ساتھ سماج دشمن عناصر کا قلع قمع کردے گی۔ کچھ ایسا ہی اعلان جمعہ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی سامنے آیا تھا۔ اعلیٰ سول و عسکری قیادت پر مشتمل اس کمیٹی نے اپنے اعلامیہ میں کہا تھا کہ ’پاکستان کو للکارنے والوں کو پوری قوت سے جواب دیا جائے گا‘ ۔اس دوران پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے ایک بار پھر قومی یک جہتی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان وسیع تر اشتراک عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ کراچی میں پاک بحریہ کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا ہے کہ ’معیشت کے بحران اور دہشت گردی کی صورت میں پاکستان کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے‘ ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ تقسیم شدہ پاکستانی معاشرے کے سب دھڑے اصولی طور پر جنرل عاصم منیر کے اس بیان کی تائید کریں گے لیکن عملی طور پر وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ ملک کو اپنی بقا کے لئے قومی یک جہتی اور وسیع تر اتحاد و اتفاق رائے کی ضرورت ہے لیکن ملکی سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کب ہوں، صوبائی اسمبلیاں توڑی جائیں یا کسی دوسرے طریقے سے فریق مخالف کا راستہ مسدود کیا جائے اور انتخابات کے شیڈول یا طریقہ کار کے حوالے سے معمولی بات پر ایک دوسرے کے خلاف طعنہ زن ہیں۔ چھوٹی چھوٹی سازشیں کی جا رہی ہیں اور جن اقدامات کو سیاسی چال بازی سمجھ کر فخر و انبساط کا اظہار ہوتا ہے، وہی درحقیقت ملکی مسائل میں اضافہ کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ لیکن اس بھنور سے نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔

پاکستان شاید دنیا کا واحد بدنصیب ملک ہے کہ جس میں مسائل پر اتفاق ہونے کے باوجود قومی لیڈر انہیں حل کرنے کے لئے مل بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ عام طور سے مسائل کی نوعیت اور تشخیص کے حوالے سے سیاسی اختلافات ہوتے ہیں یا سیاسی جماعتیں مختلف معاشی و قومی ترجیحات کی وجہ سے دوسری پارٹیوں سے بات چیت کا کوئی مشترکہ پلیٹ فارم تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ البتہ پاکستان میں مسائل کی نوعیت پر سب متفق ہیں اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ان کا حل کیا ہے لیکن لیڈروں کے درمیان پائی جانے والی ذاتی دشمنیاں اس حد تک شدید ہیں کہ وہ مشترکہ مفاد کے کسی منصوبہ کے لئے بھی مل کر بات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ہر لیڈر کا خیال ہے کہ صرف اسی کے پاس مسائل کا بہترین حل ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس حل کے خد و خال عام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ یہ دعویٰ ہی کافی سمجھا جاتا ہے کہ اقتدار اگر اس کے حوالے کر دیا جائے تو وہ جادو کی ایسی چھڑی گھمائے گا کہ لوگ خوشحال، ملک محفوظ اور قوم سرفراز ہو جائے گی۔ معیشت سرپٹ دوڑنے لگے گی اور دہشت گرد و ملک دشمن عناصر دم دباکر اپنے بلوں میں گھس جائیں گے۔

یادش بخیر سال بھر پہلے انہی دنوں میں موجودہ حکمران جماعتیں کچھ ایسے ہی دعوے کیا کرتی تھیں۔ تحریک انصاف کی معاشی ناکامیوں کا مضحکہ اڑاتے ہوئے عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی تھی کہ اس حکومت کے ہوتے قومی بہبود کا کوئی کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ ایک بار انہیں اقتدار مل گیا تو ملکی معیشت بگٹٹ دوڑنے لگے گی۔ اس زعم میں گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے نتیجے میں متعدد جماعتوں کے اتحاد نے شہباز شریف جیسے تجربہ کار سیاست دان کی سربراہی میں حکومت قائم کرلی لیکن 8 ماہ گزرنے کے باوجود معیشت بہتر ہونے کی بجائے مسلسل دگرگوں ہے۔ اب عمران خان کا یہی دعویٰ ہے کہ جب تک اقتدار ان کے حوالے نہ ہو کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔حالانکہ ملکی معاشی بدحالی کا تعلق کسی ایک حکومت یا شخص کی پالیسیوں کی بجائے عمومی صورت حال سے ہے۔ سیاسی استحکام اور پارلیمانی اختیار کے بغیر معیشت پر دباؤ کم نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کر دیتا ہے تو قومی اسمبلی میں زور زبردستی انہیں معطل کروانے کا قانون منظور کروا لیا جاتا ہے۔ جب الیکشن کمیشن مجبوری میں ہار مان لیتا ہے تو ہائی کورٹ کا ایک جج دس پندرہ گھنٹے کے اندر اسلام آباد کے وسیع علاقے میں انتخاب کروانے کا حکم جاری کر دیتا ہے۔ نہ سیاست دان حقیقت کا سامنا کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ جج قانون کی مقررہ حدود کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے لیکن ملک کی متعدد ہائی کورٹس میں سے کوئی بھی کسی بھی معاملہ پر حکم امتناعی جاری کر کے اس کے دائرہ کار اور قوت فیصلہ کو ختم کر سکتی ہے۔ پھر صدر مملکت جسے آئینی بالادستی کی علامت ہونا چاہیے، سیاسی وابستگی کی بنیاد پر فیصلے اور بھاگ دوڑ میں مصروف رہتا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ پاکستان ان حالات کا سامنا کیوں کر رہا ہے۔ اس ملک میں اسٹبلشمنٹ کو کئی دہائیوں سے ’غیرعلانیہ‘ مقتدرہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یعنی جو فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں تھے وہ جی ایچ کیو یا اس کے زیر اختیار اداروں کے ذریعے انجام پاتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے شروع میں ملکی سیاسی نظام کو تتر بتر کرنے والے نام نہاد ہائبرڈ نظام کی مکمل ناکامی یا اس سے سابقہ آرمی چیف کی مایوسی کی وجہ سے فوج نے اچانک نیوٹرل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ یوں پورے سیاسی نظام میں ایک نیا اور غیر متوقع خلا پیدا ہو گیا۔ اب ہائبرڈ نظام کی پیداوار ایک لیڈر پرانے مزے واپس لینے کے لئے بے چین ہے اور نئی قائم ہونے والی حکومت کو کہیں سے اپنی اتھارٹی نافذ کرنے کی قوت و اختیار دستیاب نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے ملکی سیاست میں تعطل پیدا کیا ہے اور قومی مکالمہ سے انکار کرتی ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ جمہوریت جائے بھاڑ میں اسٹبلشمنٹ، عدلیہ سمیت میدان میں نکلے اور ایک خاص سیاسی نعرے کی بنیاد پر حکومت سازی کا ماحول پیدا کرے۔ایسے میں جنرل عاصم منیر کا تجویز کردہ قومی اتفاق رائے کیسے پیدا ہو گا؟ ہماری بدنصیب تاریخ کے نشیب و فراز گواہ ہیں کہ ایسا ’اتفاق رائے‘ فوج ہی پیدا کرواتی رہی ہے۔ یاد کیجئے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کے بعد کا اتفاق رائے، تاحیات دھرنے کا خاتمہ اور اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری۔ یا پھر جنوری 2020 میں آرمی چیف کو توسیع دینے والی قانونی ترمیم یا سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود صادق سنجرانی کے چئیرمین بننے کا معجزہ۔ فوج کا کہنا ہے کہ وہ اب ایسی ’شعبدہ بازیوں‘ سے تائب ہو چکی ہے۔ البتہ اس کے راوی سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ ہیں۔ نئے آرمی چیف کو اپنا موقف ابھی واضح کرنا ہے۔ فوج اگر سیاست چھوڑ کر آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے پر راضی ہے تو اس کا کردار وزارت دفاع کے ایک ذیلی محکمے کے طور پر ہونا چاہیے۔ اور اس کے سربراہ کو ائرفورس و بحریہ کے سربراہ کی طرح سیکرٹری دفاع کو رپورٹ کرنا ہو گا۔ قومی اتفاق رائے کا بڑا مقصد حاصل کرنے کے لئے فوج کی یہ پوزیشن واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ اگر فوج اپنے آئینی کردار کی وجہ سے اب یہ کام کرنے سے معذور ہے تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے والا خواہ ’کالا چور‘ ہی کیوں نہ ہو ملکی نظام کی تمام قوتیں اس کے اشارہ ابرو پر کام کریں گی۔ کیا ملک میں یہ صورت حال موجود ہے؟

عمران خان کی تند خوئی اور ہٹ دھرمی اس بات کی چغلی کھاتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے غیر سیاسی ہونے کا دعویٰ مکمل طور سے درست نہیں۔ اسی بے یقینی کی وجہ سے سیاسی بحران شدید ہو رہا ہے اور سیاسی پارٹیاں ترجیحات بنانے میں مشکلات کا شکار ہیں اور عدالتیں نہیں جانتیں کہ انہیں ویسا ہی ’خود مختار‘ ہونا ہے جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے کا حکم دیتے وقت تھے یا کسی طرف سے ہدایات کے بعد بہترین قومی مفادات میں کچھ اہم فیصلے کرنے ہیں۔ ’غیر جانبداری‘ کے اعلان کے باوجود سیاسی لیڈروں کو ابھی تک ملے جلے اشارے مل رہے ہیں اور ان کی تفہیم پر ہی وہ پوزیشن لینے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اقتدار کی بندر بانٹ کے اگلے مرحلے میں وہ درست جگہ پر موجود ہوں۔یہ بے یقینی ختم کیے بغیر قومی اتفاق رائے کا وہ مقصد حاصل ہونا ممکن نہیں ہے جس کی ضرورت پر جنرل عاصم منیر نے زور دیا ہے۔ اگر فوج ماضی کی طرح کوئی ’جعلی اتفاق رائے‘ پیدا کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتی تو نئے آرمی چیف کو جلد از جلد اپنی کمان میں موجود فورسز کو مکمل طور سے سول حکومت کا تابع فرمان بنانے کا اقدام کرنا ہو گا۔ غیر ضروری سیاسی اشاروں کا سلسلہ بند ہو اور ماضی کے اثاثوں کو بتا دیا جائے کہ فوج غیر جانبدار ہو گئی ہے، اب ان کی خدمات درکار نہیں ہیں۔ جب تک پرویز الہیٰ جیسے اثاثے فوج کے نام پر سیاسی میدان میں جوڑ توڑ کرتے رہیں گے، نہ تو کوئی بحران حل ہو گا اور نہ ملک کے زوال کا سفر رک سکے گا۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں