دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا افغانستان کے ساتھ ایک نئی جنگ شروع ہوگی؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
پاکستانی میڈیا میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان کو زیادہ اہمیت نہیں مل سکی کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کی حفاظت کے لئے امداد فراہم کرنے پر تیار ہے۔ افغانستان سے آنے والی چند دوسری خبروں کے ہجوم میں پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ بیان معنی خیز، تشویشناک اور قابل غور ہے۔ پاکستان کی مالی مشکلات اور بیرونی امداد و قرضوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تناظر میں بھی اس بیان کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔پاک افغان سرحد پر افغان سیکورٹی فورسز کی غیر ذمہ دارانہ فائرنگ کے واقعات کے علاوہ، کابل میں پاکستانی سفارت خانے میں ناظم الامور کو ہلاک کرنے کی کوشش جیسے واقعہ نے دونوں ملکوں کے درمیان خلیج میں اضافہ کیا ہے۔ سرسری سفارتی بیانات سے قطع نظر ابھی تک افغانستان کے ساتھ معاملات درست کرنے کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ سرحدوں پر ناجائز سرگرمیوں اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کی خبروں سے پاکستان و افغان کے تعلقات میں دراڑ پڑی ہے اگرچہ اس کا علی الاعلان اعتراف نہیں کیا جاتا۔ اسلام آباد کا خیال ہے کہ طالبان کو پاکستان کی سلامتی کے معاملہ پر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خاموش سفارت کاری ان تمام اختلافات کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے جو ان دونوں ملکوں کے درمیان سر اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو افغان طالبان کو متعدد حوالوں سے پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ پاکستانی حکومت نے عالمی سطح پر طالبان حکومت کو مناسب موقع دینے کے لئے ہر طرح سے آواز اٹھائی ہے۔ حتی کہ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ امریکہ افغانستان کے منجمد اثاثے واگزار کردے تاکہ طالبان حکومت اپنے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے منصوبوں کا آغاز کرسکے۔ پاکستان نے اگرچہ طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا لیکن کابل میں پاکستان کی سفارتی نمائندگی موجود ہے اور افغانستان کو فراہم ہونے والی تمام غیر ملکی امداد پاکستان کے راستے ہی افغان عوام تک پہنچ رہی ہے۔ افغانستان کو بیشتر اشیائے صرف بھی پاکستان ہی کے راستے تک وہاں تک پہنچ پاتی ہیں اور پاکستانی منڈیاں افغان تاجروں اور صارفین کے لئے تجارت کا سب سے موثر اور منافع بخش مرکز ہیں۔

اس کے علاوہ افغانستان پر طویل امریکی قبضے کے دوران بھی پاکستان نے ہمیشہ افغان طالبان کی اخلاقی و سفارتی مدد کی تھی اور کبھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا۔ انہی درپردہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان پر دہشت گردی کی معاونت و سرپرستی کرنے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کو متعدد عالمی فورمز پر شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا جن میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے گرے لسٹ میں ڈالنے کے علاوہ ہر قابل ذکر فورم پر امریکہ بھارت گٹھ جوڑ سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ تاہم پاکستان نے افغان طالبان کی ’محبت‘ میں ان الزامات کا سامنا کیا اور بالآخر پاکستان ہی کے تعاون سے امریکہ نے افغان طالبان کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات کا آغاز کیا جو طالبان اور امریکہ کے درمیان ایک ایسے معاہدے کا سبب بنے جس کے نتیجے میں امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا اور کابل پر طالبان کا قبضہ ہو گیا۔

علاقے میں عسکری اور اسٹریٹیجک صورت حال کی تبدیلی کے باعث کوئی اس معاملہ پر کھل کر بات نہیں کرتا لیکن گزشتہ سال اگست میں کابل پر قبضہ کے دوران طالبان کو پاکستان کا تعاون حاصل رہا تھا۔ جس کا ایک اظہار اس وقت دیکھنے میں آیا جب کابل پر قبضہ کے فوری بعد پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اچانک وہاں جا پہنچے اور ہوٹل میں ایک مختصر گفتگو میں انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ طالبان خوش اسلوبی سے حکومت سازی اور ملک چلانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ان طویل، گہرے اور قابل اعتماد تعلقات کے باوجود طالبان نے افغانستان میں حکومت سنبھالنے کے فوری بعد ہی پاک افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ اب بھی متعدد مواقع پر طالبان کے کارندے اور سیکورٹی اہلکار اس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ باڑ اکھاڑنے کے اکا دکا واقعات سے البتہ طالبان اور پاکستان کے درمیان سرحدی کنٹرول کے معاملہ میں اختلافات کو تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔ طالبان امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدہ میں افغان سرزمین کو بیرون ملک دہشت گردی میں ملوث عناصر سے پاک کرنے کے پابند ہیں۔ طالبان حکومت کے ترجمان متعدد بار اس بارے میں یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں۔

پاکستان کو البتہ طالبان کے ساتھ طویل اور خوشگوار تعلقات کے پس منظر میں امید تھی کہ کابل پر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ٹی ٹی پی کو کنٹرول کیا جائے گا اور ان تمام عناصر کا خاتمہ ہو گا جو پاکستانی افواج پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ اسلام آباد کو امید تھی کہ طالبان افغانستان کی تعمیر، بیرونی دنیا سے تعلقات کی بحالی اور افغان عوام کو طویل جنگ کے بعد کچھ ریلیف دینے کے لئے پرامن ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کی حد تک یہ امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب کابل کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے عناصر کی کھلم کھلا سرپرستی کی اور انہیں گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرنے کی بجائے جیلیں توڑ کر فرار ہونے میں مدد کی گئی۔ بعد کے مہینوں میں یہ بھی واضح ہو گیا کہ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے اور کابل حکومت پوری طرح ٹی ٹی پی کی پشت پناہ ہے۔اس پس منظر میں پاکستان کو افغان حکومتی نمائندوں کی ثالثی میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے اور انہیں پاکستان واپس آ کر اپنے گھروں میں پر امن طریقے سے آباد ہونے کا موقع فراہم کرنے کا تقاضا کیا گیا۔ پاکستان نے ان کوششوں سے بھی انکار نہیں کیا لیکن ٹی ٹی پی کے لیڈر کسی بامقصد معاہدے کی بجائے محض وقتی طور پر پاکستانی حکومت کو مصروف رکھنا چاہتے تھے۔ موجودہ حالات میں واضح ہو رہا ہے کہ طالبان حکومت مسلسل ان کی سرپرست تھی۔ اب بھی ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں محفوظ و پرسکون زندگی گزار رہی ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں پیش پیش ہے۔ پاکستان کے علاوہ امریکہ اور عالمی برادری اب طالبان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد عناصر کو لگام دی جائے اور ان کا خاتمہ کیا جائے کیوں کہ طالبان نے امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں خود اس کا وعدہ کیا تھا تاہم متعدد دوسرے وعدوں کی طرح اس پر عمل کی نوبت نہیں آ رہی۔

افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی پریشانی میں یوں بھی اضافہ ہوا ہے کہ طالبان نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر متفقہ قومی حکومت بنانے کے وعدے پر کوئی خاص پیش رفت نہیں کی ہے۔ اسی طرح خواتین کو مساوی حقوق دینے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ طالبان پرائمری اسکول کے بعد لڑکیوں کے اسکول کھولنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے یونیورسٹی میں طالبات کے داخلہ پر پابندی لگادی ہے۔ ایک علیحدہ حکم کے ذریعے نجی شعبہ میں کام کرنے والی تمام قومی اور بین الاقوامی تنظیموں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عملہ میں شامل خواتین کو برطرف کر دیں اور دفتروں میں آنے کی اجازت نہ دیں کیوں کہ وہ لباس کے نام نہاد اسلامی کوڈ پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اس پابندی پر اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور تین بڑی عالمی این جی اوز نے فوری طور سے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں معطل کردی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین پر مشتمل عملہ کے بغیر انتہائی مشکل حالات میں گھرے ہوئے افغان خاندانوں کو امداد فراہم نہیں کر سکتے۔ واضح رہے افغانستان کو ملنے والی تمام امداد غیر سرکاری تنظیموں ہی کے ذریعے افغان عوام تک پہنچ رہی ہے کیوں کہ دنیا نہ تو طالبان حکومت کو تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے مالی وسائل فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ البتہ افغان عوام کی ابتر صورت حال، غذائی قلت اور صحت سہولتوں کی کمیابی کی وجہ سے افغان عوام کی اکثریت ان عالمی تنظیموں کے ذریعے ملنے والی امداد ہی کی وجہ سے گزر بسر کر رہی ہے۔ اب افغان طالبان یہ سلسلہ بھی بند کرنے کے اشارے دے رہے ہیں۔

افغان طالبان کے یہ دعوے غلط ثابت ہو رہے ہیں کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور وہ ایک ایسا افغان معاشرہ تعمیر کرنے کے لئے کام کریں گے جس میں تمام طبقات کو یکساں مواقع حاصل ہوں اور ہر گروہ کو اپنے سیاسی حجم کے مطابق اقتدار میں حصہ بھی دیا جائے۔ اظہار رائے، خواتین اور اب عوام کو ملنے والی سہولتوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے طالبان نے بالواسطہ طور سے پوری دنیا کے خلاف ’اعلان جنگ‘ کیا ہے۔ پاکستان کے لئے ٹی ٹی پی کی سرپرستی اور پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کارروائیوں میں اضافہ خاص طور پریشانی کا موجب ہے۔پاکستانی حکومت یا عسکری حلقوں کی طرف سے معمول کے مذمتی بیانات کے علاوہ اس صورت حال سے نمٹنے کا کوئی قابل عمل منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ اس وقت یہ حالت ہے کہ دہشت گرد حملے صرف قبائلی علاقوں یا بلوچستان ہی میں نہیں ہو رہے بلکہ اسلام آباد میں دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ایک بہادر پولیس افسر کی قربانی کی وجہ سے ناکام رہا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ نے اپنے شہریوں کو میریٹ ہوٹل نہ جانے اور اسلام آباد میں اپنی نقل و حرکت محدود رکھنے کا مشورہ دیا ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ دہشت گرد امریکی شہریوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

ان حالات میں پاکستان کے وزیر خارجہ نے خوشخبری دی ہے کہ امریکہ افغان سرحد کی حفاظت کے لئے پاکستان کی امداد پر تیار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس امداد کے بدلے کیا قیمت دینے پر آمادہ ہوا ہے۔ اس قسم کی امداد کا ایک پہلو پاک امریکہ تعلقات کی پیچیدہ تاریخ کے حوالے سے پریشان کن ہو سکتا ہے تو دوسرا پہلو اس مدد پر کابل حکومت کا رد عمل ہو گا۔ کیا طالبان حکومت امریکی امداد سے افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کی ’نگہداشت‘ کو براہ راست اپنی خود مختاری پر حملہ سمجھیں گے یا اسے دو خود مختار ملکوں کا معاملہ سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے۔ پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل اور عالمی امداد کے لئے حکومتی کوششوں کے تناظر میں بھی بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے امریکی عسکری امداد کی ’خوشخبری‘ خرابی کے بہت سے پہلو لئے ہوئے ہے۔ اس معاملہ کو ماضی میں ملنے والی امداد، اس کے استعمال اور پاکستانی سماج و معیشت پر اس کے منفی اثرات کو نظر انداز کر کے سمجھا نہیں جاسکتا۔

بدقسمتی سے ماضی میں افغان پالیسی کے حوالے سے پاکستان کو ایک ایسے ملک کی شہرت حاصل رہی ہے جو بیرونی امداد کے لئے کسی بھی قسم کی جنگ جوئی پر آمادہ رہتا ہے۔ ماضی میں پاکستان ایسی ہی امداد کی بنیاد پر معاشی معاملات چلاتا رہا ہے۔ کیا پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ بات چیت میں ایک بار پھر کوئی ایسا منصوبہ زیر غور ہے جس کے تحت پاک فوج کو افغانستان میں وہ کام کرنے کا ’ٹھیکہ‘ دیا جا رہا ہو جسے بیس برس کے دوران امریکہ کی سرکردگی میں اتحادی افواج سرانجام نہیں دے سکیں؟ حکومت اگر اپنی افغان پالیسی کی تفصیلات واضح نہیں کرے گی تو بظاہر وزیر خارجہ کا ’بے ضرر‘ بیان ملک کے مستقبل کے بارے میں نئے اندیشوں کی خبر لا رہا ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)


واپس کریں