دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پراجیکٹ عمران کے بعد اب پراجیکٹ پاکستان پر توجہ دی جائے
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
پاکستان دنیا کے ان معدودے چند بدنصیب ممالک میں شامل کیا جاسکتا ہے جہاں حقیقی مسائل کی بجائے غیر اہم اور غیر ضروری معاملات کو مباحث کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ پاکستان اگرچہ معاشی مشکلات کا شکار ہے اور اس کا سب سے اہم مسئلہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے زرمبادلہ کا انتظام کرنا ہے لیکن گزشتہ دو ماہ سے بھی زائد مدت سے ملک کے عوام و خواص کو صرف اس معاملہ میں دلچسپی رہی ہے کہ پاک فوج کا نیا سربراہ کون ہو گا۔اللہ اللہ کر کے اب یہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ کسی نے خوش دلی سے اور کسی نے مصلحتاً جنرل عاصم منیر کی تقرری کو قبول کیا ہے لیکن اب اس معاملہ پر یک سوئی اور ’اتفاق رائے‘ موجود ہے کہ فوج میں کمان کی تبدیلی کے بعد حالات بہتر ہوں گے۔ رسماً اور دکھاوے کے لئے کہا تو یہی جا رہا ہے کہ نئے آرمی چیف ساری توجہ پروفیشنل معاملات اور سرحدی صورت حال پر مرکوز کریں گے لیکن اس کے باوجود حکومت ہو کہ اپوزیشن، ان کی تمام تر امیدیں اب بھی اسی ایک نکتہ پر مرکوز ہیں کہ نئے آرمی چیف کی حکمت عملی ان کے سیاسی عزائم کے لئے سود مند ثابت ہو۔ گویا فوج سے ’غیر سیاسی‘ ہونے کی امید کرتے ہوئے، اس امید پر قیاس کے محل استوار کیے جا رہے ہیں کہ فوج کے ’غیر سیاسی‘ ہونے سے کیا فائدہ کشید کیا جاسکتا ہے۔ اور غیر سیاسی ہونے کی یہ حکمت عملی دراصل کتنی لاتعلقی پر استوار ہوگی۔ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ سیاسی لیڈروں کی جانب سے عسکری قیادت سے مسلسل اعانت کی امیدیں قائم کرنے کا یہی رویہ دراصل ملکی سیاست میں غیر منتخب عناصر کی دراندازی کا سبب بنا رہا ہے۔

مبصرین عام طور سے اس بات پر متفق ہیں کہ ناکام ’عمران پراجیکٹ‘ کے بعد فوج کو مجبوراً سیاسی مداخلت کے چلن کو خیرباد کہنا پڑا تھا کیوں کہ تحریک انصاف کے براہ راست حملوں اور فوجی قیادت کو مطعون کرنے کے طریقوں نے فوجی کی ساکھ، شہرت اور وقار کر شدید نقصان پہنچایا تھا۔ اسی لئے یہ بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں سمجھا جا رہا تھا کہ جنرل باجوہ کو مزید توسیع دینے کی بجائے کسی نئے جنرل کو میرٹ کی بنیاد پر اس عہدے پر فائز کیا جائے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز میں سے سینئر جنرل کو اس عہدے پر فائز کر کے بظاہر اس تنازعہ کو ختم کیا لیکن اس فیصلہ کا اعلان کرنے میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے مسائل گنجلک بھی ہوئے اور سیاسی فضا بھی آلودہ رہی۔ 2018 کے انتخابات میں ملک کی دو سیاسی جماعتوں کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لئے تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے اور عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔اس پراجیکٹ کی منصوبہ بندی جنرل راحیل شریف ہی کے دور میں شروع ہو گئی تھی تاہم اسے جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں باقاعدہ عملی جامہ پہنایا گیا جب کسی بھی طور سے عمران خان کو قومی اسمبلی میں اکثریت دلوا کر وزیر اعظم کے منصب پر فائز کیا گیا۔ تازہ سول قیادت سامنے لانے اور ’بے داغ‘ کردار کے حامل عمران خان کو اقتدار سونپنے کے بعد بھی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی سرکردگی میں تحریک انصاف کی حکومت کو مضبوط کرنے اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ خیال تھا کہ اس قریبی تعاون کے نتیجہ میں سول ملٹری تعلقات کا ’ایک پیج‘ مضبوط ہو گا اور قوم کو ہمہ قسم مسائل سے نکال لیا جائے گا۔

البتہ اس نام نہاد عمران پراجیکٹ کا بھی وہی حشر ہوا جو انجام کا اندازہ کیے بغیر کوئی قدم اٹھانے کا ہو سکتا ہے۔ عمران خان کو مسیحا سمجھ کر طاقت عطا کرنے والوں نے کبھی اس پہلو سے غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ پاکستان میں دودھ و شہد کی نہریں نہیں بہتیں۔ یہاں جو بھی حکومت خواہ کسی بھی طریقہ سے قائم ہو، اسے بہر صورت مشکل حالات میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے جوش میں عمران خان اور تحریک انصاف ہی نے کوئی ٹھوس معاشی و انتظامی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور سیاسی بساط پر مہرے بٹھانے کے عسکری ماہرین نے بھی اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ جن ہاتھوں میں ملکی اقتدار سونپا جا رہا ہے، وہ کیوں کر گوناں گوں مسائل کو حل کر پائیں گے اور اس مقصد کے لئے انہیں زاد راہ کہاں سے فراہم ہو گا۔

پراجیکٹ عمران کو لانچ کرنے اور اقتدار تک پہنچانے کے بعد بھی اگر ’منصوبہ ساز‘ براہ راست سیاسی مداخلت سے گریز کا راستہ اختیار کرلیتے تو عمران حکومت کو پہلے دن سے ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے کام کرنا پڑتا۔ اس صورت میں شاید سیاسی تعاون کا بہتر ماحول پیدا ہو سکتا۔ اس کی بجائے فوجی لیڈروں نے عمران خان کی خواہش پر مخالف سیاسی لیڈروں کو ہراساں کرنے کے علاوہ سفارتی، معاشی اور انتظامی امور میں عمران حکومت کا ہاتھ بٹانے کے نام پر تمام ذمہ داریاں خود سنبھال لیں۔ یہ معاملہ ابتدائی چند برسوں میں تو کام کرتا رہا لیکن عمران خان کے مطالبے اور خواہشات بڑھتی رہیں اور فوج کے لئے فرد واحد کی حکومت کے قیام میں غیر مشروط مدد فراہم کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو یکساں ’دشمن‘ سمجھ کر محبت کا جو رشتہ استوار ہوا تھا، اس میں دراڑیں پڑنے لگیں۔

اب بطور وزیر اعظم عمران خان کے اس منصوبہ کی جزئیات سامنے آ رہی ہیں جن کی وجہ سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کے اختلافات شدید ہوئے۔ وہ اپنے پسندیدہ اور معاون جنرل فیض حمید کو وقت سے پہلے ہی آرمی چیف بنا کر ملک میں صدارتی نظام لانے کے نام پر شخصی تسلط قائم کرنا چاہتے تھے۔ فیض حمید کو ان کی خدمات کے عوض غیر معینہ مدت کے لئے فوج کی کمان سونپنے کی تجویز بھی زیر غور تھی۔ البتہ جب اپوزیشن نے اس منصوبہ کو ناکام بنانے کے لئے عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر کام شروع کیا تو وہی پتے ہوا دینے لگے جن پر تکیہ کرتے ہوئے عمران خان وزیر اعظم کی کرسی پر متمکن تھے۔ اس کشمکش میں ملکی معیشت سمیت تمام مسائل بدستور نظر انداز ہوتے رہے۔ اقتدار کی کھینچا تانی میں ملکی ضرورتوں کو پس پشت ڈالا جاتا رہا۔

عمران پراجیکٹ نام کا یہ سیاسی منصوبہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور پورا ملک آرمی چیف کی تعیناتی کا قضیہ طے ہو جانے کے بعد اب اس منصوبہ کے حسن و قبح پر بحث و مباحث میں مصروف ہے۔ البتہ اس سے سبق سیکھنے کی بجائے اور فوج کے اس ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کہ وہ سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہتی ہے، مسلسل یہ خواہش کی جا رہی ہے کہ نئی فوجی قیادت کسی ایک خاص گروہ کی تائید میں سرگرم ہو تاکہ ملک میں ’اطمینان و سکون‘ کا ماحول بحال ہو سکے۔ اس قسم کی توقعات یا انہیں پورا کرنے کی کوئی کوشش درحقیقت مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ملکی سیاسی منظر نامہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے ملکی مفاد کو سب سے پہلے رکھ کر کچھ بنیادی فیصلے کیے جائیں اور ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے طور پر ان پر عمل پیرا ہوں۔ یعنی یہ مان لیا جائے کہ عمران پراجیکٹ اب ماضی کا قصہ بن چکا، اب سب کو مل کر پراجیکٹ پاکستان پر توجہ دینے اور اس ملک کو کامیاب و کامران بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز پہلے جی ایچ کیو کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی ایک پارٹی ملکی مسائل حل نہیں کر سکتی۔ اس مقصد کے لئے سب کو مل جل کر کوشش کرنا ہوگی۔ جنرل باجوہ کی اس بات کو ان کے اس تجربہ کا نچوڑ سمجھنا چاہیے جو پراجیکٹ عمران کو لانچ کرنے اور اسے کامیاب بنانے کی کوشش میں ملک کو ناکام بنانے اور فوج کو بے توقیر کرنے کا سبب بننے کی صورت میں انہیں حاصل ہوا تھا۔ عمران پراجیکٹ میں باقی تمام اہم سیاسی عناصر کو ملکی سیاست سے بے دخل کر کے عمران خان کی قیادت میں ایک ’نیا پاکستان‘ تعمیر کرنے کی آرزو کی گئی تھی۔ اس کوشش میں ملکی سماج میں فاصلے پیدا ہوئے اور نفرتوں کی خلیج گہری ہوئی۔ یہ نفرتیں اس وقت ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ تحریک انصاف اور حکومتی اتحادی جماعتیں اب بھی ایک دوسرے کو سیاسی حقیقت کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ تحریک انصاف اپنے طور پر کسی بھی طرح انتخابات منعقد کروانا چاہتی ہے کیوں کہ اسے امید ہے کہ شہباز حکومت کی ناکامی اور عمران خان کی مقبولیت کے ماحول میں پارٹی کو اسمبلیوں میں بہت واضح اکثریت حاصل ہو سکتی ہے۔ جبکہ حکومتی پارٹیاں کسی بھی قیمت پر انتخابات کو زیادہ سے زیادہ مدت کے لئے مؤخر کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ کسی انتخاب سے پہلے کھوئی ہوئی سیاسی مقبولیت کو دوبارہ حاصل کر لیں۔

تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) اپنے اپنے زاویے سے صورت حال کا جائزہ لے رہی ہیں۔ لیکن یہ جائزے اپنی اپنی پارٹی کی سیاسی حیثیت کے بارے میں ہیں۔ ان میں پاکستان کے وسیع تر مفاد کا معاملہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کا مفاد اس وقت سیاسی کھینچا تانی کی بجائے مل بیٹھ کر سیاسی مسائل حل کرنا اور معاشی مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ ملکی سیاسی جماعتیں جب تک اس حقیقت کو تسلیم کر کے مذاکرات کی طرف نہیں بڑھیں گی، اس وقت تک ’ملک ڈیفالٹ کر جائے گا‘ کی صدائیں تو سنائی دیتی رہیں گی لیکن اس بحران سے نمٹنے کا کوئی قابل عمل حل تلاش نہیں ہو سکے گا۔ معاشی وسائل کی دستیابی کے علاوہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ داخلی انتشار اور سیاسی انارکی ہے۔ ملکی بہبود کے لئے سب سے پہلے اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے سیاست کو کسی ہار جیت سے مختص کرنے کی بجائے کسی بڑے مقصد سے منسلک کرنا ضروری ہو گا۔مستقبل میں آج کے پاکستان کی کہانی سنانے والا مؤرخ ضرور بتائے گا کہ اس مشکل وقت میں کس سیاسی لیڈر نے کیا کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت پراجیکٹ عمران کا تذکرہ غیر ضروری ہو گا لیکن پراجیکٹ پاکستان کے لئے کام کرنے والوں کو یاد رکھا جائے گا۔ دیکھنا ہو گا کہ کون سا پاکستانی لیڈر تاریخ میں اچھے نام سے یاد رکھے جانے کو وقتی اقتدار کے مقصد پر ترجیح دینے پر تیار ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں