دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نئے آرمی چیف کا اعلان ہونے میں تاخیر کیوں؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر جاری کشمکش تحریک انصاف کی ہوس اقتدار سے زیادہ حکومت کی کمزوری اور ناطاقتی کی علامت بن چکی ہے۔ اسی کا نتیجہ کا ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد کی سڑکوں پر روزانہ کی بنیاد پر لاقانونیت کے مظاہرے ہو رہے ہیں اور لانگ مارچ کے نام پر سجائے گئے اسٹیج سے مسلسل ایسے دعوے کیے جا رہے ہیں جو ملک کی سلامتی پر براہ راست حملہ ہیں۔ ان جارحانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن وزیر اعظم ’مشاورت اور پیغام رسانی‘ کے نام پر لندن گئے ہوئے ہیں۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس وقت عمران خان کی قیادت میں قومی سلامتی کے اداروں کی جو درگت بنی ہوئی ہے، اس کی بنیادی ذمہ داری خود انہی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ گزشتہ ستر برس کے دوران سیکورٹی فورسز اور ان کے تابع کام کرنے والی ایجنسیوں نے جستہ جستہ ملکی سیاست کو اپنا اسیر بنانے کا منظم کھیل کھیلا ہے۔ اسی منصوبہ بندی اور قومی مفاد کی نام نہاد حفاظت کا گھمنڈ ہی تھا کہ جنرل باجوہ کی قیادت میں ہائبرڈ نظام کے نام پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طاقت کو تقسیم کرنے اور ملکی انتظامی امور پر گرفت مستحکم رکھنے کے لئے عمران خان کو مسلط کیا گیا۔ اس وقت عمران خان بلاشبہ اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ایک علامت بن کر سامنے آئے ہیں لیکن درپردہ وہ اسٹبلشمنٹ ہی کے طاقت ور عناصر کے آلہ کار ہیں۔ بصورت دیگر سیاسی اسٹیج سے فوج پر دشنام طرازی کا یہ سلسلہ یوں دیکھنے میں نہ آتا۔ اور نہ ہی چند فوجی افسروں کو مطعون کرنے کے بعد کسی نہ کسی انٹرویو میں یہ کہہ کر ’زیتون کی شاخ‘ دکھانے کی کوشش نہ کی جاتی کہ سیاست سے فوج کے کردار کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ صرف اسے صحیح لیڈروں کے ساتھ مل کر ملکی مفاد میں کام کرنا چاہیے۔

عمران خان کا مقدمہ فوج کو سیاست سے نکالنا نہیں ہے بلکہ وہ فوج کو اپنے مفادات کا نگہبان بنانا چاہتے ہیں۔ اس وقت لانگ مارچ میں تقریروں اور میڈیا میں انٹرویوز کے ذریعے جو ایک خاص سنسنی خیز ماحول بنایا گیا ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ فوج کے ان تمام عناصر کو مشتبہ قرار دیا جائے جو فوج کے ’غیر سیاسی‘ کردار پر یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فوج کو اپنی شہرت واپس لینے اور عوام کا احترام پانے کے لئے، سیاسی معاملات سے دور رہنا ہو گا۔ عمران خان کے لئے یہ رویہ ناقابل قبول ہے کیوں کہ وہ ماضی قریب کے تجربات سے جانتے ہیں کہ فوج کی مکمل اعانت کے بغیر نہ وہ اقتدار میں واپس آسکتے ہیں اور نہ ہی امور مملکت چلانے کے قابل ہیں۔اقتدار میں تحریک انصاف کا ساڑھے تین سال کا دورانیہ اس حقیقت کا شاہد ہے کہ اگر فوج ہر مرحلے پر عمران خان کی پشت پناہی نہ کرتی اور جنرل قمر جاوید باجوہ ان کی حکومت کے غیر علانیہ ’وزیر خارجہ‘ کے طور پر فرائض انجام نہ دیتے تو یہ حکومت قائم ہونے سے پہلے ہی منہ کے بل گر جاتی۔ تحریک انصاف کے پاس نہ تو کوئی سیاسی منصوبہ تھا اور نہ ہی اب وہ کسی ٹھوس معاشی اور سیاسی پروگرام کی بنیاد پر عوام کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کل بھی عمران خان کی ہوس اقتدار بنیاد تھی اور آج بھی ساری ہنگامہ آرائی کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا جائے اور یہ یقین بھی دلایا جائے کہ انہیں مکمل ’اختیار‘ حاصل ہو گا اور فوج ان کی بے اعتدالیوں پر حرف زنی نہیں کرے گی۔

ایک روز پہلے ملک کے معتبر انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنے اداریہ میں عمران خان کی تازہ ترین میڈیا ٹاک کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’عمران خان نے اب آرمی چیف کی تقرری کی حوالے سے اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے۔ اب وہ یہ نہیں کہتے کہ‘ چوروں لٹیروں ’کو فوج کے نئے سربراہ کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بلکہ اب وہ مان رہے ہیں کہ وزیر اعظم جسے چاہیں نیا آرمی چیف بنا دیں، انہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ ۔ لیکن آج گجرات میں لانگ مارچ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ ’لندن میں ہونے والا تماشا اداروں کو مضبوط نہیں کرے گا۔ نواز شریف وہ آرمی چیف تعینات کرے گا جو اس کے خیال میں ان کی مدد کرے گا‘ ۔ عمران خان نے ایک بار پھر نیکی و بدی کا گمراہ کن تصور بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان کے اندر امر بالمعروف نہیں ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ اچھائی کے ساتھ کھڑے ہو اور برائی کا ساتھ مت دیں‘ ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہینڈلرز‘ نے ان چوروں کو ہم پر مسلط کر دیا ہے۔

اب یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ وہ کن عناصر کو ہینڈلرز کہتے ہیں۔ یہ الزام لگاتے ہوئے وہ فوج کے سربراہ اور ان کی پالیسیوں پر عمل کرنے والی عسکری قیادت کو ’ہینڈلرز‘ کا نام دے رہے ہیں جو ان کے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے اور شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے میں متحرک رہے ہیں۔ یہ الزام تراشی کرتے ہوئے وہ ان ’ہینڈلرز‘ کا ذکر نہیں کرتے جن کی پشت پناہی کی وجہ سے عمران خان نے اس وقت ملک کو میدان جنگ میں تبدیل کیا ہوا ہے اور جنہیں کسی بھی طرح فوج میں مضبوط کرنے کے لئے وہ اس اہم ادارے کے وجود کو ہی داؤ پر لگانے پر آمادہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ جنگ نئے آرمی چیف کی تقرری کے ساتھ ہی جیتی یا ہاری جا سکتی ہے۔ اسی لئے ایک طرف وہ درپردہ مذاکرات میں مصروف ہیں اور کسی بھی طرح اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف پبلک پلیٹ فارم سے فوج کو ’غیر معتبر اور بے اعتبار‘ کرنے کے لئے براہ راست موجودہ حکومت کے مقرر کیے جانے والے آرمی چیف کو تعیناتی سے پہلے ہی ’جانبدار‘ قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

حکومت کی غیر موثر پالیسی اور عملی طور سے کمزوری کے اظہار نے عمران خان کی باتوں میں مزید زہر گھول دیا ہے۔ اس موقع پر حکومت یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے کہ جب تسلسل سے فوج کے بعض افراد کو نشانہ بنا کر پورے ادارے کے بارے میں ہتک آمیز اور زہر آلود پروپیگنڈا کیا جائے گا تو اس سے ملکی دفاع کی صورت حال متاثر ہوگی۔ خاص طور ہمسایہ ملک بھارت ایسے بحران و انتشار کا فائدہ اٹھانے میں موقع کی تاڑ میں ہو گا۔ حکومت اور فوج خواہ کتنے ہی زوردار طریقے سے یہ اعلان کرتے رہیں کہ دشمن کو قومی سرحدی سلامتی کی طرف میلی آنکھ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن بھارتی قیادت مسلسل آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ بنانے کے دعوے کرتی رہتی ہے۔ بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا مباحث میں یہ معاملہ مسلسل زیر بحث ہے کہ 2024 کے انتخاب سے پہلے نریندر مودی کی حکومت اپنی سیاسی مقبولیت کو سہارا دینے کے لئے لائن آف کنٹرول کی حیثیت تبدیل کرنے کے لئے کوئی بھی مہم جوئی کر سکتی ہے۔ پاکستان میں عمران خان نے ایسا سیاسی طوفان برپا کیا ہوا ہے کہ اس شور میں قومی سلامتی کو بھارت کی طرف سے لاحق اس سنگین خطرہ کے بارے میں کوئی بات سننے میں نہیں آتی۔

یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اس طوفان بدتمیزی کے باوجود پاک فوج سرحدوں کی حفاظت کے لئے پوری طرح چوکس ہے۔ اور حکومت اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر کسی بھی ناگہانی صورت حال کا سامنا کرے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب فوج کی قیادت کو مسلسل نشانے پر لیا جائے گا اور اسے ’سچائی‘ کی بجائے ’بدی‘ کا ساتھی قرار دیا جاتا رہے گا تو سرحد پر موجود سپاہی کا حوصلہ کیوں متاثر نہیں ہو گا؟ اس معاملہ میں سب سے بڑی بدنصیبی یہی ہے کہ عمران خان کی حکمت عملی بھی درون خانہ ملنے والی اعانت اور اشاروں کی مدد سے تیار ہوتی ہے۔ جب سخت بات کرنے کا مشورہ ملتا ہے، عمران خان گرجنے برسنے لگتے ہیں اور جب کہا جاتا ہے کہ اب لہجہ مفاہمانہ کر لیا جائے تو میڈیا کو یقین دلایا جاتا ہے کہ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کون نیا آرمی چیف بنے گا۔البتہ اس سارے تماشے میں اب یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اگر کچھ ’ہینڈلرز‘ شہباز شریف کی حکومت کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو اسی ادارے کے کچھ ’ہینڈلرز‘ عمران خان کے ذریعے انتشار پیدا کرنے اور ملک کی آئینی حکومت کے لئے درد سر بنے رہنے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ عمران خان اگر ’ہینڈلرز‘ کے آلہ کار نہ ہوتے تو شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، پرویز الہیٰ، فواد چوہدری، پرویز خٹک اور اسد عمر جیسے ’اثاثے‘ عمران خان کے دائیں بائیں دکھائی نہ دیتے۔

حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری کو مسلسل ’آئینی استحقاق‘ کہتے ہوئے مؤخر کر رہی ہے لیکن اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ اس اہم تعیناتی کے لئے درپردہ ہونے والا لین دین اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اور یہ لین دین محض عسکری قیادت اور سیاسی حلقوں کے درمیان نہیں ہو رہا۔ بلکہ فوج کے اندر بھی کوئی ایسا ’امیدوار‘ تلاش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جس پر وسیع تر اتفاق رائے ہو تاکہ نیا آرمی چیف آنے کے بعد فوج کے اندر موجود بے چینی کا خاتمہ ہو سکے۔ نواز شریف ماضی میں متعدد آرمی چیف مقرر کر چکے ہیں اور ان تجربات کی بنیاد پر ان سے زیادہ کوئی اس بات کو نہیں جان سکتا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کسے فوج کا سربراہ بناتے ہیں، وہ اپنی مرضی اور ادارے کے مفاد کی بنیاد پر ہی پالیسی اختیار کرے گا اور سیاسی قیادت کو اسے ماننے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ حکومت کی طرف سے نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ فوجی قیادت کی طرف سے ’گرین سگنل‘ ملنے کے انتظار میں ہی مؤخر ہو رہا ہے۔ اسے ہی شہباز حکومت کی کمزوری اور بودا پن کہا جائے گا۔

موجودہ ملکی حالات کا تقاضا تھا کہ جب یہ واضح ہے کہ سیاسی طور سے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون نیا آرمی چیف ہو گا تو سنیارٹی کے اصول کو منطبق کیا جاتا اور سینئر ترین لیفٹننٹ جنرل کو نیا چیف بنانے کی روایت کا آغاز ہوتا تاکہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے طے ہو جاتا اور ہر تین سال بعد آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے غیر ضروری مباحث کا آغاز نہ ہوتا۔ حکومت اپنی پارلیمانی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج کی ’سیاسی بالادستی یا ہٹ دھرمی‘ کی روک تھام کے لئے مسلح افواج کے سربراہان کو توسیع دینے کا طریقہ بھی ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتی تھی۔اس کے برعکس شہباز شریف لندن جاکر بیٹھ گئے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے ایک اہم ادارے میں پیدا ہونے والی چپقلش طے ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری سے پیدا ہونے والے فساد سے ملک و قوم کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کی وجہ سے فوج جیسے ادارے کی حرمت، وقار اور اعتبار کے بارے میں جو شکوک پیدا ہو رہے ہیں، اس کی براہ راست ذمہ داری وزیر اعظم پر عائد ہوگی۔ کیوں کہ ملک کا آئین انہیں اس معاملہ میں مکمل اختیار عطا کرتا ہے لیکن وہ اس اختیار کو مناسب طریقے سے استعمال کرنے کی قدرت کا مظاہرہ نہیں کرپائے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں