دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کی صورتحال
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
آزاد کشمیر میں31سال کے بعد 27نومبر کو منعقد ہونے والے بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں جاری ہیں اور الیکشن کے وقت میں تین ہفتے سے کم وقت رہ گیا ہے۔آزاد کشمیر کے بلدیاتی الیکشن2022کے لئے حلقہ بندی میں 10اضلاع کو 10ضلع کونسلوں، 5 میونسپل کارپوریشنوں، 14 میونسپل کمیٹیوں، 14ٹائون کمیٹیوں اور2080 یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جبکہ بلدیاتی نمائندگان کی مجموعی تعداد 2343ہے۔اس بلدیاتی الیکشن میں ووٹروں کی کل تعداد 29 لاکھ 48 ہزار 200 ہے جس میں 15 لاکھ 64 ہزار 902 مرد ووٹر اور 13 لاکھ 83 ہزار 102 خواتین شامل ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق 42امیدواران بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں جبکہ کل 10556امیدوار مدمقابل ہیں۔ضلع کونسل کی نشستوں پر کل1825، یونین کونسل کی نشستوں پر7275، ٹائون کمیٹی کی نشستوں پر 275، میونسپل کمیٹی پر 381 جبکہ میونسپل کارپوریشن کی سطح پر 800امیدوار مد مقابل ہیں۔

آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کو حکم تو صادر کر دیا لیکن اس بات پہ توجہ نہیں دی گئی کہ انتخابات سے قائم ہونے والے بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور ان کا دائرہ کار کیا ہو گا۔گزشتہ دنوں ہی حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں خواتین اور نوجوانوں کی تعداد کم کرنے سے متعلق ایک آرڈیننس کے جاری کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے تسلیم نہ کرنے کی بات تو کی لیکن اس کے خلاف عدلیہ سے رجوع نہیں کیا گیا اور نہ ہی الیکشن شیڈول جاری ہوجانے کے بعد حکومت کی طرف سے جاری اس آرڈیننس کا سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی نوٹس لیا گیا۔ان بلدیاتی انتخابات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آزاد کشمیر کی قبیلائی صورتحال میں اداروں کے سربراہان کے اقدامات ذاتی عناد و مخالفت میں ملوث نظر آتے ہیں۔بلدیاتی انتخابات کے خلاف پس پردہ کوششیں بھی محسوس کی جار ہی ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم تنویر الیاس کی حکومت اسمبلی میں اپنی اکثریت سے محروم ہو چکی ہے اور اسی لئے کئی دنوں تک مسلسل جاری رہنے والے اسمبلی اجلاس کے باوجود حکومت نے خواتین اور نوجوانوں کی نشستیں کم کرنے سے متعلق مسودہ قانون اسمبلی میں پیش کرنے کے بجائے آرڈیننس کا سہار الیا ہے ۔جماعتی بنیادوں پہ ہونے والے ان بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت ' تحریک انصاف' پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم کانفرنس، جماعت اسلامی ، تحریک لبیک اور دیگر جماعتوں کے امیدواروں کے علاوہ کافی تعداد میں آزاد امیدوار وں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔انتخابات کے تیاریوں کے باوجود یہ خدشہ پایا جا رہا ہے کہ عین وقت پہ بلدیاتی انتخابات تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے گزشتہ دنوں کہا گیا کہ بلدیاتی الیکشن بہر صورت کرائے جائیں گے اور اگر مطلوبہ تعداد میں سیکورٹی اہلکار میسر نہ ہوئے تو اضلاعی سطح پہ مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔

ان بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر یہ موضوع بنا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں وہی شخص حصہ لے سکتا ہے جو ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا حامی ہو۔یہ بات واضح ہے کہ آزاد کشمیر میں ہندوستان کا حامی کوئی نہیں ہے تاہم خود مختار کشمیر کے نظرئیے کے حامی پائے جاتے ہیں۔یوں انتخابات میں پاکستان سے الحاق کے حامی ہونے کی شرط نہ صرف ریاستی باشندوں پر بے اعتمادی کا اظہار ہے بلکہ یہ پاکستان کے آئین کے آریٹکل 257کی روح کے بھی منافی ہے کہ جس میں کشمیریوں کی رائے کو تسلیم کرنے کا آئینی عہد کیا گیا ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ قرار داد الحاق پاکستان میں پاکستان کے ساتھ ایک صوبے کے طور پر نہیں بلکہ بطور ایک ریاست، خصوصی حیثیت میں الحاق کی بات کی گئی ہے جس میں دفاع اور خارجہ امور وغیرہ پاکستان کے پاس ہوں گے جبکہ باقی تمام داخلی امور میں ریاستی اسمبلی، حکومت مکمل طور پر خود مختار ہو گی۔یوں یہ شرط ہر لحاظ سے غیر مناسب ہے اور اس کا ختم کیا جانا ضروری ہے۔

واپس کریں