دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جموں میں مسلمانوں کا قتل عام
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
اکتوبر 1947کے آخری ہفتے میں جموں کے دیہاتوں میں مسلمانوں کی بستیوں کو لوٹنے اور جلانے کی کارروائیاں شروع ہوچکی تھیں نومبر کا پہلا ہفتہ تو قتل عام کیلئے موثر ہو چکا ہے۔ 5 نومبر کو جموں شہر کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ ایک جگہ جمع ہو کر پاکستان جانے کیلئے تیار رہیں۔ اور جب چالیس ٹرکوں کا پہلا قافلہ روانہ ہوا تو راستہ میں ان کا راستہ بدل کر ایک میدان میں اتارا گیا جہاں ڈوگرہ غنڈہ پہلے سے تیار تھے،اور تمام قافلہ ختم کیا گیا۔ چھ نومبر کو 70 ٹرکوں پر دوسرا قافلہ روانہ ہوا۔ ان کو بھی اسی طرح ختم کیا گیا بے گناہ مسلمانان جموں کا یہ قتل عام نومبر کے آخیر تک جاری رہا۔ اس دوران 5 لاکھ سے زیادہ مسلمان پاکستان میں دھکیل دیئے گئے ۔ دو لاکھ کے قریب شہید ہوگئے ۔ 16 ہزار عصمت مآب نوجوان خواتین کو اغواء کیا گیا ۔ ان دلخراش واقعات کو قلم بند کرنے کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہے۔ جموں کا قتل عام انسانی تاریخ کا ایک شرم ناک حادثہ ہے۔

ان واقعات سے متاثر ہوکر برطانیہ کے اخبار ''ٹائم اینڈٹائیڈ ''لکھتا ہے ، ''جب کشمیر میں امن وامان قائم ہوجائے گا سیاستدان کہتے ہیں کہ ایک استصواب رائے عامہ ہوگا۔ کیا خاک استصواب ہوگا؟ اور کس سے استصواب کیا جائے گا۔ جب رائے دینے والے موت کی نیند سو چکے ہوں گے یا خوف کے مارے جن کی زبانیںخاموش ہوں گی''۔ نیشنل کانفرنس کے ایک سابق صدر سرداربدھ سنگھ نے ایک تقریر میں اعتراف حقیقت کرتے ہوئے کہا، ''سچ پوچھو توہمارے ہندو بھائی ہی راجوری اور میرپور و جموں کے قتل وخون کے ذمہ دارہیں۔ یہی ناحق قتل و خون کے حالات سن کر قبائلی سرینگر کی طرف بڑھے۔ '' ( ہفت روزہ ''سچ ''جموں 25 مئی 1949 )

وزیراعظم مسٹر نہرو نے بھارتی پارلیمنٹ میں جموں کے قتل عام کا ذکرکرتے ہوئے بتایا ، ''ماہ نومبر کے اوائل میں جموں کے قریب بعض ایسے حوادث پیش آئے جن پر مجھے افسوس ہے۔ مسلم پناہ گزینوں کا قافلہ جموں سے جا رہا تھا اس پر غیر مسلم پناہ گیروں اور دوسرے لوگوں نے حملہ کیا اور بہت سے لوگ مقتول اور زخمی ہوگئے۔ محافظ فوج نے اپنا فرض بعزت طریق پر ادا نہ کیا''۔ شیخ محمد عبداللہ نے 12 نومبر1947 ء کو ایک بیان میں جموں کے حادثات کا ذکرکرتے ہوئے کہا،
'' صوبہ جموں کے حالات خوشگوار نہیںمگر یہ ان حالات کا ردعمل ہے جوکچھ مغربی پنجاب (پاکستان )میں ہوا ہے''۔

ہورس الیگزینڈر نے ڈیلی سپکٹیٹر (16 جنوری 1948 )میں لکھا کہ ریاستی حکومت نے حکمت عملی کے تحت قتل عام کیا اور قتل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ گئی۔ دی ٹائمز لندن (10 اگست1948 ) نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ڈوگرہ فوج نے ہندوں اورسکھوں کی مدد سے دولاکھ سینتیس ہزارمسلمان باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہلاک کئے۔ جب تک کہ وہ سرحد پار کر کے پاکستان نہیں چلے گئے۔ڈیلی سٹیٹمین کے ایڈیٹر آئن سٹیفن نے اپنی کتاب آنرڈ مون میں لکھاکہ1947 میں خزاں کے اختتام تک دولاکھ سے زائدمسلمان ہلاک کئے گئے۔خود بھارتی حلقے بھی جموں میں ہونے والے اس قتل عام کی تصدیق کرتے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے ایک سابق صدر سرداربدھ سنگھ نے ایک تقریر میں اعتراف حقیقت کرتے ہوئے کہا سچ پوچھو تو ہمارے ہندو بھائی ہی راجوری اور میرپور و جموں کے قتل وخون کے ذمہ دار ہیں۔ یہی ناحق قتل وخون کے حالات سن کرقبائلی سرینگرکی طرف بڑھے۔ ( ہفت روزہ سچ جموں 25 مئی 1949 )

آزاد کشمیر کے سابق سینئر بیوروکریٹ طارق مسعود مرحوم نے اپنے تفصیلی وڈیو انٹرویو میں بتایا کہ '' یہ دو یا تین نومبر 1947کی بات ہے،ڈوگرہ حکومت کی طرف سے اعلان ہوا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان جانے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا،جو لوگ پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ ایک بستر اور ایک صندوق لیکر پانچ نومبر کی صبح ،بد ھ کا دن،پولیس لائین میں پہنچ جائیں۔سب اپنا سامان اٹھائے پولیس لائین کی طرف چل پڑے۔فالتو سامان راستے میں مہاراجہ اور پٹیالہ کی فوج نے چھین لیا،پولیس لائین میں بے شمار لوگ تھے،گاڑیاں بھی موجود تھیں،ہر کسی کی کوشش تھی کہ وہ گاڑی پہ سوار ہو جائے، ہمیں گاڑیوں میں جگہ مل گئی،پینتالیس،پچاس لاریاں تھیں،اس لاری میں سترہ سیٹیں ہوتی تھیں،ہمارے لوگ تقریبا پندرہ سو،دو ہزار تھے،لاریوں میں لوگ ٹھونسے گئے ،جتنے لاریوں میں آئے،باقی وہیں بیٹھے رہے ۔آگے چل کر لاریوں کا قافلہ بجائے سیالکوٹ جانے کے پکی سڑک چھوڑ کر کٹھوعہ کی طرف موڑا تولوگوں کو سمجھ آ گئی کہ ان کی نیت ہمیں مارنے کی ہے،عورتیں اونچی آواز میں رونے لگیں۔پاکستان کے باڈر سے تین چار میل کے فاصلے پہ ایک جگہ ' ماوا' کے مقام پر انہوں نے لاریاں کھڑی کر دیں،مسافروں کوباہر نکالا اور انتظار کرنے لگے۔ہم وہاں شام کو پانچ ،ساڑھے پانچ بجے پہنچے تھے،وہ وہاں سنگ پارٹی کا انتظار کر رہے تھے ، وہ نہ پہنچے تو انہوں نے تقریبا ساتھ بجے کے قریب سامان چھیننا اور عورتیں کو ایک طرف ہٹانا شروع کر دیا،جب یہ شروع ہوا تو ہڑ بڑ مچ گئی اور لوگ اٹھ کر بھاگنا شروع ہو گئے،انہوں نے فائرنگ شروع کرنے سے پہلے دوسرے ہتھیاروں سے لوگوں کو مارنا شروع کر دیا،لوگوں کو معلوم تھا کہ مغرب کی سمت پاکستان ہے،وہ اس طرف بھاگنے لگے،وہاں اینٹوں کے بھٹے تھے،کچھ اس میں گر گئے،پھر فائرنگ شروع ہو گئی''۔

آزادی کی راہ میں قتل عام کے اس اندوہناک واقعہ کے 75 سال گزر جانے کے بعد ہم ان عظیم اور بے نظیر قربانیوں اوراس مقصد کوسراسر فراموش کربیٹھے ہیں جس نے برصغیر نے برصغیرکی تاریخ کو بدل دیا۔ریاست جموں وکشمیر کے اکثریتی مسلمانوں کی اپنی آزادی کے لئے جدوجہد اور شہادتوں کاسفراب بھی جاری وساری ہے لیکن قومی امور کے حوالے سے ہماری مفاد پرستی اور بدکرداری اتنا ہی بڑاسانحہ ہے جتنے 1947 میں قتل عام کے واقعات ہیں۔





واپس کریں