دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خونی انقلاب کی کوشش عمران خان کو مہنگی پڑے گی
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
لانگ مارچ کی ضرورت اور عمران خان کی حکمت عملی شاید ان کے قریب ترین ساتھیوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی۔ لیکن کوئی بھی بظاہر اس بڑھتے طوفان کا نہ تو رخ موڑنے پر تیار ہے اور نہ ہی یہ ہمت جتا پارہا ہے کہ عمران خان کو بیک وقت معتدد محاذ کھولنے سے باز رہنے کا مشورہ دے سکے۔ یوں لگتا ہے کہ سب نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ہے لیکن یہ کسی کو خبر نہیں کہ یہ حالات ملک و قوم کے علاوہ خود تحریک انصاف اور اس سے وابستہ اہم ترین لیڈروں کو کہاں لے جائیں گے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کو اس وقت پاکستانی عوام میں مقبولیت حاصل ہے۔ البتہ یہ بیان نقل کرنے کے بعد یہ اضافہ بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس امر کی تصدیق کے لئے ضمنی انتخابات کی چند کامیابیاں ، گزشتہ چند ماہ کے دوران پر جوش جلسے اور عمران خان کے تواتر سے کئے جانے والے دعوے ہی ثبوت کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان لگ بھگ تئیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔ ان میں سے بارہ کروڑ سے زائد بطور ووٹر رجسٹر ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ عمران خان کے لانگ مارچ میں چند ہزار لوگ شامل ہیں یا چند لاکھ یہ البتہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اپنے لیڈر کے گرد بھنگڑا ڈالتے، نعرے لگاتے اور سب کچھ ملیا میٹ کرنے کے نعرے سنتے اور لگاتے لوگ بہر حال پاکستانی عوام اور ووٹروں کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ یہ لوگ نہ تو اکثریت کی نمائیندگی کررہے ہیں اور نہ ہی ان میں پاکستان کی تقدیر بدل دینے کی صلاحیت ہے۔ البتہ ان کے لیڈر کو گمان ہے کہ وہ اس ہنگامے کو اپنی طاقت کے عالیشان مظاہرے کے طور پر پیش کرکے نہ صرف حکومت بلکہ اسٹبلشمنٹ یعنی فوج اور عدلیہ کو یکساں طور سے جھکنے پر مجبور کرسکتا ہے۔

اس گمان کا تجزیہ کرنے سے پہلے البتہ مقبولیت اور اس کے شواہد کے حوالے سے دو مزید نکات کا حوالہ دینا ضروری ہے کہ ایک: عمران خان ضمنی انتخابات میں اپنی کامیابی اور مقبولیت کا حوالہ دیتے ہوئے یہ نوٹس کرنا بھول جاتے ہیں کہ جہاں بھی تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی ہے ، ان کے مدمقابل امیدواروں کو بھی قابل ذکر تعداد میں ووٹ ملے ہیں۔ بیشتر حلقوں میں تو جیتنے والے امید وار کو ڈالے گئے کل ووٹوں میں بھی اکثریت حاصل نہیں ہوتی۔ کجا یہ کہا جائے کسی حلقے سے جیتنے والا شخص اس حلقے کے بیشتر لوگوں کا پسندیدہ ہے۔ پاکستان میں برطانوی پارلیمانی نظام کے تحت انتخابات ہوتے ہیں جس میں سادہ اکثریت حاصل کرنے والا جیت جاتا ہے اور اس سے یہ اصول طے نہیں ہوپاتا کہ جیتنے والے کو واقعی کسی حلقے کے ووٹروں کی واضح اکثریت پسند کرتی ہے۔ اور نہ ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ جیتنے والی پارٹی کے علاوہ باقی سب پارٹیوں کو اس ایک حلقے میں کوئی نمائیندگی حاصل نہیں ہے۔ البتہ پارلیمانی طرز انتخاب کے طریقہ کے مطابق سب یہ مان لیتے ہیں کہ اس طریقے سے کسی حلقے میں جیتنے والا کوئی رکن اسمبلی آئیندہ مدت کے لئے اس حلقے کے سب لوگوں کی نمائیندگی کا حق ادا کرے گا۔ یہ استحقاق پانے کے لئے البتہ اسے یہ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے حلقے کے ہر طبقہ، گروہ، افراد اور اداروں کی بات سنے گا اور ان کی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھے گا تاکہ عوام میں عام طور سے جمہوریت کی بالادستی اور اس کے میٹھے ثمر کا احساس پیدا ہوسکے۔ جان لینا چاہئے کی کامیابی و مقبولیت کے بارے میں عمران خان کا دعویٰ اس حد تک کو قابل قبول ہے کہ انہیں ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ لیکن اس بیان کا یہ حصہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ کسی حلقے میں کامیابی کے بعد وہاں سے جیتنے والا اپنے مدمقابل سب لوگوں کو چور اچکے اور عوام کا مسترد شدہ طبقہ کہنا شروع کردے۔ کیوں کہ بہر حال دوسری پارٹیوں یا آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد بھی قابل ذکرتعداد میں ووٹ حاصل کرتی ہے۔

دوئم: عمران خان لانگ مارچ کو عوام کا طوفان ثابت کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جب ان کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا تو اس میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد شامل ہوگی کہ حکومت یا سیکورٹی فورسز میں ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہوگی اور انہیں بہر صورت عمران خان کے مطالبات مان کر فوری انتخاب کروانا ہوں گے اور ان کی مرضی جان کر نیا آرمی چیف لگانے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ یہ بیان یا تاثر بے بنیاد اور واقعاتی لحاظ سے غلط ہے۔ اوّل تو عمران خان نے جمعہ سے شروع ہونے والے لانگ مارچ میں جس ’عوامی قوت‘ کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ ہرگز متاثر کن نہیں ہے۔ اگر یہ تعداد اس قدر زیادہ ہوتی کہ قافلہ جب گوجرانوالہ داخل ہورہا ہوتا تو اس کا دوسرا حصہ اگر شاہدرہ نہیں تو کم از کم کالا شاہ کاکو یا مرید کے تک ہی موجود ہوتا، تب بھی اسے عمران خان کی طاقت کا ثبوت مان لیا جاتا۔ لیکن اس وقت صورت یہ ہے کہ عمران خان ہر شام کو خطاب کے بعد ’لانگ مارچ کے شرکا‘ کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دے کر خود آرام کرنے یا بعض ’بااختیار‘ حلقوں سے بیچ کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے نقطہ نظر سے بات چیت کرنے لاہور پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے جلوس کو عوام کا سیلاب کہنا اس محاورے کو بے حرمت کرنے کے مترادف ہے۔

عمران خان نے گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران جس بے چینی اور انتہائی بدحواسی کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہیں اندیشہ ہے کہ اسلام آباد پہنچنے تک حسب توقع مظاہرین کی تعداد جمع نہیں ہوسکے گی اور وہ ایک بار پھر 25 مئی کی طرح اسلام آباد فتح کرنے کا خواب دیکھتے ہوئے اپنا لانگ مارچ کسی نہ کسی عذر پر منسوخ یا معطل کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ یوں تو عمران خان کے سیاسی شعور اور ان کی تجزیاتی صلاحیت کے بارے میں کسی خوش گمانی کا جواز نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہیں یہ اندازہ تو ہوگا کہ دوسرے لانگ مارچ کی ناکامی انہیں سیاسی طور سے مہنگی پڑے گی۔ عمران خان کی کبھی تند و تیز اور کبھی شیریں گفتگو سے تو یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی لانگ مارچ کے ’مقاصد‘ حاصل کرنے کا اعلان کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ایک طرف عمران خان عوام کو فیصلہ کن قوت قرار دے کر محض اس لئے خود کو ملکی سیاسی معاملات میں ’حرف آخر‘ قرار کہتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول پاکستانی عوام کی اتنی بڑی اکثریت ان کے ساتھ ہے کہ وہ آئیندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے اقتدار میں آئیں گے۔ لیکن اسی منہ سے وہ یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کررہے ہیں کیوں کہ اصل اختیار تو اسی کے پاس ہے۔ اسلام آباد میں قائم حکومت تو ’امپورٹڈ‘ ہے اور ’چور لٹیروں‘ پر مشتمل ہے۔ اسے بھی عمران خان کی بدحواسی ہی سمجھنا چاہئے کہ وہ تسلسل سے ایسے جھوٹے بیان دے رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج ہی ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ ’مارشل لاء لگانا ہے تو لگا دیں، مجھے کیا ڈرا رہے ہیں‘۔ حیرت ہے کہ ایک قومی لیڈر عوام سے اتنا بڑا جھوٹ بولنے کا حوصلہ کرسکتا ہے۔ فوج نے اگر مارشل لا لگانے کا فیصلہ کیا تو وہ ’دھمکی‘ نہیں دے گی، اپنے کسی فیصلے پر عمل کرکے دکھائے گی۔ فی الوقت نہ تو فوج نے ایسا کوئی اشارہ دیا ہے اور نہ ہی معروضی ملکی و بین الاقوامی حالات ایسے ہیں کہ پاک فوج ایمرجنسی نافذ کرنے یا مارشل لا لگانے جیسا اقدام کرکے ملک و قوم کی معاشی و سفارتی مشکلات میں اضافہ کرے۔ اس وقت پاکستان جس دگرگوں معاشی صورت حال کا سامنا کررہاہے، اسے حل کرنے کے لئے عالمی امداد، دوست ممالک کی خیر سگالی کے علاوہ ملک میں سکون و اطمینان ضروری ہے۔ موجودہ حکومت نے معاشی ڈسپلن اور سفارتی محاذ پر برف پگھلانے کا کام تو کسی حد تک سرانجام دیا ہے لیکن وہ ابھی تک ملکی سطح پر امن و امان قائم کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عمران خان کا عدم تعاون پر استوار غیر جمہوری و غیر سیاسی رویہ ہے۔

عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ فوج سے لڑنا نہیں چاہتے بلکہ وہ اس ادارے کی اصلاح کے لئے تنقید کرتے ہیں تاہم ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر اعلیٰ فوجی عہدیداروں پر براہ راست الزام تراشی کرنے کا رویہ برائے اصلاح نہیں بلکہ اس کا واحد مقصد دباؤ میں اضافہ کرنا ہے۔ لیکن عمران خان یہ سمجھنے کی غلطی ضرور کررہے ہیں کہ پاک فوج کوئی مخالف کرکٹ ٹیم نہیں ہے جسے کسی ’گیم پلان‘ سے بدحواس کرکے ہارا ہؤا میچ جیتنے کا امکان پیدا کرلیاجائے۔ یہ تربیت یافتہ پیشہ ور عسکری قوت ہے جس نے سیاسی میدان میں ضرورت سے زیادہ مداخلت سے اپنے لئے وقتی مشکلات پیدا کی ہیں ۔ عمران خان کی تند خوئی انہی غلطیوں کی قیمت ہے جو اس وقت پاک فوج کی قیادت کو چکانا پڑ رہی ہے۔ لیکن چند روز پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ کی غیر معمولی پریس کانفرنس کے اس پیغام میں کوئی ابہام نہیں تھا کہ فوج کو سیاسی غلطیوں کی بنا پر بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان بدستور وہی غلطی دہرا رہے ہیں۔ اور ان کے ساتھی بھی انہیں اس پالیسی کی تباہ کاری سے آگاہ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

اسی ناقص حکمت عملی اور کسی غور و فکر کے بعد تقریریں کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج صبح ہی عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ’پاکستان میں انقلاب تو آکر رہے گا البتہ یہ دیکھنا ہے کہ یہ ووٹ سے آتا ہے یا خوں ریزی سے انقلاب برپا ہوگا‘۔ تحریک انصاف کے ایک لیڈر کی آڈیو سامنے آچکی ہے جس میں وہ اسلحہ جمع کرنے کی باتیں کررہے ہیں اور بعد میں ایک وضاحتی بیان میں عمر امین گنڈا پور نے کہا کہ انہیں’ اپنے لوگوں کی حفاظت کے لئے اسلحہ کا انتظام کرنے کا حق ہے‘۔ سیاسی احتجاج و مظاہرہ کے دوران ایسے دعوے اور رپورٹیں عمران خان کی پوزیشن کمزور کرتی ہیں۔ وہ پاکستانی عوام کے ’غیر متنازعہ لیڈر‘ نہیں ہیں۔ اور اپنے حامیوں کے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لئے انہیں عقل کے ناخن لینے چاہئیں اور سیاسی مکالمہ و مفاہمت کا راستہ اپنانا چاہئے۔نواز شریف نے ٹوئٹ بیان میں عمران خان کو کوئی رعایت نہ دینے کا اعلان کیا ہے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت کو مسترد کیا ہے لیکن اس کے باوجود ملکی سیاست میں مفاہمت کے امکانات موجود ہیں۔ البتہ اس مقصد کے لئے عمران خان کو ’مقبولیت ‘ کے خود ساختہ سنگھاسن سے نیچے اترنا پڑے گا۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں