دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کمزور کو آسودگی نہیں ملتی ، بربادی کے مشورے ہیں آسمانوں میں
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
جب کمزور حقیقت اور سچائی کی بات کرتا ہے تو اس کے مطالبے کو نظر انداز ، مسترد کر دیا جاتا ہے کیونکہ کمزور حقیقت اور سچائی پر عملدرآمد کرنے یا کرانے کی طاقت نہیں رکھتا ۔طاقتور جب جھوٹ کی بات کرتا ہے تو اس کی بات کو جھٹلانامشکل اور ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ طاقتور کا جھوٹ دھونس اور ہٹ دھرمی پہ مبنی ہوتا ہے اور مدمقابل طاقت نہ ہونے کی وجہ سے جھوٹ کا مقابلہ ناقابل تردید حقیقت کی طرح کرتا رہ جاتا ہے۔ایسی ہی صورتحال اپنے بنیادی حق کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو درپیش ہے جن کے حق آزادی کی اقوام متحدہ کا چارٹر، سلامتی کونسل کی قرار دادیں اور عالمی برادری تسلیم کر چکی ہے لیکن کیونکہ کشمیری کمزور ہیں اور ہندوستان طاقتور ہے، اس لئے دنیا میں کشمیریوں کے سچ پہ کوئی توجہ نہیں دیتا اور ہندوستان کی طاقت پر مبنی دھونس اورہٹ دھرمی کے جھوٹ کو دنیا حقیقت حال کی طرح ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

ایسی ہی صورتحال پاکستان کی نظر آتی ہے کہ جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات کرتا ہے اور دنیا کو یاد کراتا رہتا ہے کہ ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ پرامن اور منصفانہ طو رپر حل کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اور عالمی سطح پہ مسئلہ کشمیر، ہندوستانی زیر انتظام جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی سنگین صورتحال کی باز گشت عالمی سطح پہ اجاگر ہونے پر ہندوستانی حکومت کا یہی مستقل موقف بیان کیا جاتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ باہمی معاملہ ہے جو باہمی سطح پہ حل کر لیا جائے گا، لیکن باہمی سطح پہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے ہندوستان کے عہد ، جسے شملہ سمجھوتے سے اب تک50سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے، اب تک ناکامی اور نامرادی سے دوچار ہے۔ایک طرف ہندوستان مزاکرات کے لئے پاکستان سے ایسی پیشگی شرائط رکھتا ہے جو پاکستان کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال سے مکمل لاتعلقی کی طرح کے مختلف مطالبات پر مبنی ہیں اوردوسری طرح ہندوستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت قرار دیئے گئے پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے خطوں پر بھی قبضہ کرنے کی کھلم کھلا دھمکیاں ہی نہیں بلکہ اس پر عملدر آمد کے اقدامات کی بھی تیاری میں نظر آتا ہے۔

ہندوستان نے وزیر دفاع راج ناتھ نے 27اکتوبر کو، ہندوستانی فوج کے کشمیر میں داخلے کے دن کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام میں ہندوستان فوج کی منعقدہ ایک تقریب میں کہا کہ '' ہندوستان پاکستان زیر قبضہ کشمیر بشمول گلگت اور بلتستان کو واپس لینے کے متعلق پارلیمنٹ میں منظور کی گئی 1994 کی قرار داد کو نافذ کرنے کے لئے پر عزم ہے، سردار ولبھ بھائی پٹیل کا خواب اس دن پورا ہوگا جب سال1947 کے تمام مہاجروں کو اپنی زمین اور اپنے گھر واپس ملیں گے اور میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ وہ دن ضرور آئے گا''۔

ہندوستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں ظلم و جبر کی صورتحال صرف کشمیریوں کا ہی بیان نہیں بلکہ عالمی اداروں ، تنظیموں کے علاوہ امریکہ ، یورپی یونین سمیت مختلف ملکوں کی غیر جانبدارانہ رپورٹس بھی وہاں کی بدترین صورتحال بیان کرتی ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی ظلم و جبر ہی نہیں بلکہ تقریبا دس لاکھ فوج بھی کشمیریوں کو سبق سکھانے، انہیں خاموش رکھنے اور انہیں اپنے بتائے راستے پہ چلانے کی تگ و دو میں مسلسل مصروف ہے۔ہزارہا کشمیریوں کو ہندوستانی فورسز نے ہلاک دیا، ہزاروں ہندوستانی جیلوں میں قیدہیں اور جس کشمیری نوجوان پر بھی شک گزرے اسے کشمیری آزادی پسند مزاحمت کاروں کا معاون قرار دے کر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستان کے حامی ان سیاستدانوں کے خلاف بھی سخت روئیہ رکھا گیا ہے کہ جو ہندوستانی حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیر کا سنگین مسئلہ حل کرنے کے لئے پاکستان سے مزاکرات کئے جائیں۔مسئلہ کشمیر پرامن طور پر مزاکرات سے حل کرنے کے مسلسل بیانات پہ تو اب مقبوضہ کشمیر کی ایک ہندوستان نواز سیاسی رہنما محبوبہ مفتی کو ہندوستانی حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جا رہاہے۔یوں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرنے والوں کو یا تو فوج کے ذریعے مار دیا جاتا ہے یا جیل میں مرنے کے لئے ڈال دیا جا تا ہے۔ظلم وجبر کی ایسی کیفیت شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں موجود ہو جو ہندوستان نے اپنے زیر انتظام جموں وکشمیر میں قائم کر رکھی ہے۔لیکن ان تمام مصدقہ حقائق کے باوجود عالمی ادارے، عالمی برادری خاموش ہے کیونکہ کشمیری کمزور ہیں اور ہندوستان طاقتور ہے۔

ہمیشہ سے ہی کمزور کشمیریوں کا آسرا پاکستان کی حمایت رہی لیکن پاکستان کی کشمیر سے متعلق معذرت خواہانہ، پسپائی پر مشتمل پالیسی اور حکمت عملی سے ہندوستان کی جارحانہ پالیسیوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔1988سے مقبوضہ کشمیر میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہندوستان کے خلاف سیاسی و عسکری تحریک کے بعد ہندوستان کی یہ بھرپور کوشش ایک مطالبے کے طور پر بھی سامنے رہی کہ پاکستان کو کشمیر کی سنگین صورتحال سے لاتعلق رہنے پر مجبور کر دیا جائے۔اس کے لئے کبھی پاکستان کو مزاکرات اور کبھی مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی طرح کے'' لالی پاپ'' بھی دیئے گئے اور پاکستان کو ایسے اقدامات پر مجبور کر دیا جو پاکستان کی کشمیر کی زمینی صورتحال میں پسپائی اختیار کرنے کے مترادف تھے یعنی آزاد کشمیر میں کشمیری مزاحمت کاروں کی سرگرمیاں ختم کر نا اور ہندوستان کو کشمیر کی سیز فائر لائین، لائین آف کنٹرول پر باڑ کی تنصیب کی اجازت دینا۔یہ حقیقت نوے کی دہائی میں ہی سامنے آ چکی تھی کہ اگر پاکستان نے ہندوستان کے مقابلے میں کشمیر کا محاذ چھوڑ دیا تو لڑائی پاکستان کے ہر گھر پہ دستک دے گی اور پھر یہی ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ہر گھر پہ دہشت گردی کی دستک ہونے لگی۔

بات یہیں تک ختم نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کو اپنے علاقائی کردار سے محروم، بے اثر کرنے کے لئے پاکستان میں مزید سازشوں کی بھینٹ چڑہایا گیا جس میں پاکستان کے لوگ ہی آلہ کار کے طور پر استعمال ہوئے اور ہو رہے ہیں۔جس کا حتمی مقصد ایسا کمزور پاکستان جو ہندوستان کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرتے ہوئے ہندوستان کی تمام شرائط کو بلا چوں و چراں تسلیم کر لے۔اس کے لئے پاکستان میں سیاسی انتشار کو تیز سے تیز کیا گیا تاکہ پاکستان کو اقتصادی بدحالی کا شکار کر دیا جائے۔اس سے آگے کی کہانی گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں درپیش آنے والے حالات و واقعات ہیں اور انہیں دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان کو برباد کرنے کے یہ واقعات اب تک پاکستان میں درپیش ہیں اور اس سے پاکستان کو نجات دلانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہاں پاکستان کا شعور یہ ضرور بیان کرتا ہے کہ پاکستان کے محکموں کو اپنے اپنے دائروں میں محدود رکھنے اور پارلیمنٹ کو اصل حاکمیت دیئے بغیر پاکستان کی نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔

بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں عالمی اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی واضح ہوتا ہے کہ جس نے پاکستان کا کردار ایک پراکسی، ایک آلہ کار کے طور پر متعین کر رکھا ہے اور پاکستان میں عوامی پارلیمنٹ کی بالادستی والی حکومت اور محکموں کا اپنے اپنے دائروں میں محدود رہنا عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اس انتظام کی نفی کا راستہ ہے جو انہوں نے پاکستان کی تقدیر پہ مسلط کر رکھا ہے۔لگتا ہے کہ ہماری نجات کی کوئی راہ نہیں کیونکہ اب عمران خان کے ذریعے ملک کی آزادی کے نام پہ پاکستان کو بد سے بدتر بلکہ بدترین حالات سے دوچار کرنے کی کوششیں پھر سرگرم ہیں، جس طرح عمران خان کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد دھرنے اور عدلیہ کے انوکھے فیصلوں سے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی گئیں۔اگر اب پاکستان کی موجودہ صورتحال سے دوچار کرنے میں معاون بننے والے پشیماں ہیں تو اس کے لئے ان کرداروں کے سامنے لاتے ہوئے کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے جنہوں نے کٹھ پتلیوں کو نچاتے ہوئے پاکستان کو تباہ اور برباد کرنے کا اہتمام کیا۔یوں پشیمانی کے دعوے حقیقت سے دور معلوم ہوتے ہیں ، کیونکہ سیاسی شطرنج کھیلنے اور ' ہائبرڈ' نظام میں کوئی فرق نہیں پڑا۔

واپس کریں