دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لانگ مارچ کے تھیلے سے کون سی بلی باہر نکلے گی
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
لاہور سے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ اس لانگ مارچ نامی تھیلے سے کون سی بلی باہر نکالی جائے گی۔ حکومت کے اعلانات اورگزشتہ روز آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے سربراہان کی پریس کانفرنس کے بعد بظاہر اس بات کا امکان نہیں ہے کہ عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ پورا کروا سکتے ہیں۔ نہ ہی اس لانگ مارچ کے ذریعے نومبر میں نئے آرمی چیف کی تقرری پر اثر انداز ہونا ممکن دکھائی دیتا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے لانگ مارچ کا اعلان ہونے کے بعد ایک ٹوئٹ پیغام میں کہا تھا کہ عمران خان کے اس احتجاج کا واحد مقصد نئے آرمی چیف کی تقرری پر اثر انداز ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ نواز شریف کی نگرانی میں کام کرنے والی شہباز شریف حکومت ایسا کوئی مطالبہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے ۔ نواز شریف ماضی میں بطور وزیر اعظم متعدد آرمی چیف مقرر کرنے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں ۔ نہ تو انہوں نے کسی بھی مرحلہ پر محض سینارٹی کے اصول کو پیش نظر رکھا اور نہ ہی مرضی کا آرمی چیف لانے کے بعد انہیں سکھ سے حکومت کرنا نصیب ہؤا۔ انہی کے مقرر کردہ آرمی چیف پرویز مشرف نے 1999 میں حکومت کا تختہ الٹا اور نواز شریف کو طیارہ اغوا کیس میں سزا دلوانے کے بعد جلا وطنی اور ایک دہائی تک سیاست سے کنارہ کش رہنے پر مجبور کیا۔ نواز شریف ہی کے مقرر کردہ فوجی سربراہان کے دور حکومت میں اس ہائیبرڈ نظام کا خاکہ تیار ہؤا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا جس کی کوکھ سے عمران خان کی حکومت نے جنم لیا تھا۔ اس کے باوجود نواز شریف کی نگرانی میں قائم پی ڈی ایم کی حکومت ماضی سے سبق سیکھنے اور ’اپنی مرضی کا آرمی چیف‘مقرر کرنے کی خواہش سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں ہے۔

گزشتہ روز لیفٹیننت جنرل بابر افتخار اور لیفٹیننٹ ندیم احمد انجم کی پریس کانفرنس کے بنیادی پیغام پر غور کیاجائے تو واضح ہوتا ہے کہ فوج نے ماضی قریب میں کی گئی غلطیوں سے اٹھائے جانے والے نقصان سے تائب ہوکر اب ’غیر سیاسی‘ ہونے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ اسے انہیں غلطیوں کی ’سزا ‘ کہا جاسکتاہے کہ دو تھری سٹار جنرل عمران خان کو قوم پر مسلط کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے الزامات کی تردید کے لئے پریس کانفرنس منعقد کرنے اور اپنی پوزیشن واضح کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے واضح کیا کہ ’غیر سیاسی‘ رہنے کا فیصلہ محض آرمی چیف کا حکم یا ایک جنرل کی خواہش نہیں ہے بلکہ وہ تمام فوجی جنرل اس فیصلہ میں شامل ہیں جو آئیندہ پندرہ بیس برس کے دوران فوج کی کمان سنبھال سکتے ہیں۔ اس بیان سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ موجودہ فوجی قیادت مستقبل قریب میں سیاسی عمل میں براہ راست حصہ دار بننے کے لئے تیار نہیں ہے اور آئیندہ انتخابات کے دوران یا بعد میں حکومت سازی کے لئے کسی بھی سیاسی گروہ کو فوجی اعانت کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ اس کے باوجود شہباز حکومت کے ترجمان بدستور یہ اعلان کرتے ہیں اور اصرار کیا جارہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی مقررہ وقت پر آئینی طریقہ کے مطابق ہوگی۔

یہ آئینی طریقہ وزیر اعظم کو سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے تجویز کردہ چند ناموں میں سے ایک کو نیا فوجی سربراہ مقرر کرنے کا استحقاق دیتا ہے۔ عمران خان کی پریشانی یہ ہے کہ کوئی تحریک انصاف مخالف جنرل فوج کی کمان نہ سنبھال لے جبکہ شہباز شریف اور ان کے بھائی نواز شریف امید کررہے ہیں کہ کسی ایسے جنرل کو نیا آرمی چیف بنایا جائے جو سیاست میں ماضی کے ہائبرڈ تجربہ کی باقیات کو مکمل طور سے ختم کرنے کا کام پورا کرے۔ یہ دونوں رویے فوج کو بدستور سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کا پرتو ہیں ۔ فوج کے اس اصرار کے بعد کہ وہ سیاسی معاملات سے مکمل دست برداری کا فیصلہ کرچکی ہے، حکومت اور سیاسی پارٹیوں کو اس فیصلہ پر عمل درآمد کے لئے فوج اور اس سے منسلک اداروں کا سہولت کار بننا چاہئے تاکہ ملک میں واقعی حقیقی جمہوری عمل کے ذریعے عوام کی مرضی کے مطابق کوئی حکومت قائم ہوسکے۔ لیکن ایک طرف عمران خان اپنی تمام تر مقبولیت اور دباؤ استعمال کرتے ہوئے فوج کو موجودہ حکومت کے خلاف اکسانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ اور دوسری طرف حکومت ’مرضی ‘ کا آرمی چیف لاکر مستقبل کی سیاسی پیش رفت میں بدستور عسکری قیادت کی اعانت کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ یہ رویے نہ صرف جمہوریت کی روح بلکہ آئینی تقاضوں سے بھی متصادم ہیں۔

سیاسی لیڈروں کے اس طرز عمل کی واحد وجہ عدم اعتماد اور باہمی مواصلت کی کمی ہے۔ ایک دوسرے کو دشمنی کے درجے پر فائز کرتے ہوئے تحریک انصاف اور حکومتی سیاسی جماعتوں نے یکساں طور سے ملک کے جمہوری نظام میں غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے اپنی ان کوششوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں جبکہ حکومت تحریک انصاف کے برے تجربہ سے فوج میں پیدا ہونے والی پریشانی سے فائدہ اٹھا کر کسی بھی طرح نظام کو آئیندہ انتخابات میں اپنی سیاسی کامیابی کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ دونوں کا مقصد آئیندہ انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنا ہے اور دونوں فریق اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر دوسرا کامیاب ہوگیا تو مخالفین کو دبانے کے لئے سرکاری اختیارات استعمال ہوں گے۔ اس کا مظاہرہ ہم تحریک انصاف کی حکومت کےدور میں دیکھ چکے ہیں جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے لیڈروں کو نت نئے مقدمات میں پھنسانے، جیلوں میں بند کرنے اور ہراساں کرنے کے طریقے اختیار کئے گئے اور اب شہباز شریف کی حکومت میں تحریک انصاف کے لیڈر اور ان کی حمایت کرنے والا میڈیا کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کررہا ہے۔

بدقسمتی سے دونوں سیاسی گروہ اس طریقہ کو تبدیل کرنے اور ایک دوسرے کو قبول کرکے آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز حکومت آرمی چیف کی تقرری پر اصولی مؤقف اختیار کرکے یا مناسب قانون سازی سے اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لئے طے کرنے کی بجائے مسلسل اپنے آئینی استحقاق کا حوالہ دیتی ہے۔ اور عمران خان موجودہ حکومت کو ’چوروں کا ٹولہ‘ قرار دے کر اسے فوج کا سربراہ مقرر کرنے کا حقدار ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ سیاسی بحران کے اس مرحلہ پر جب فوج حقیقی معنوں میں غیر سیاسی یا غیر جانبدار رہنے پر اصرار کررہی ہے، فوج کی کمان کے لئے سینارٹی کا اصول طے کیا جاسکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے چیف جسٹس کی تعیناتی اسی اصول کے تحت عمل میں آتی ہے۔ یہ طریقہ قانون سازی کے ذریعے آرمی چیف کی تقرری کے لئے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے تاکہ اس حوالے سے عمران خان کا اعتراض بھی ختم ہوجائے اور حکومت کے دامن پر لگا یہ دھبہ بھی مٹایا جاسکے کہ وہ سیاسی اہداف کے لئے آرمی چیف کی تقرری کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ جنوری 2020 میں مسلح افواج کے سربراہان کو توسیع دینے کا طریقہ بھی تبدیل کرسکتی ہے تاکہ آرمی چیف کی توسیع کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کی روایت ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکے۔ دریں حالات حکمران سیاسی جماعتیں کسی طور سے مکمل جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

ان حالات میں عمران خان کا لانگ مارچ شاید فوری انتخابات یا آرمی چیف کی تقرری پر اثر انداز ہونے کا مقصد حاصل نہ کرسکے۔ لیکن انہوں نے لانگ مارچ کو جیسے ’جہاد‘ کا درجہ دیا اور عوام کو نظام کی تبدیلی کے لئے تیار کرنے کے اعلانات کے بعد، اب ان کے لئے لانگ مارچ کی کال دینے اور اس پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ حالانکہ جو مقصد عمران خان لانگ مارچ سے حاصل نہیں کرپائیں گے ، انہیں پانے کے لئے قومی اسمبلی میں اپنی نمائیندگی کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے استعفے اور پارلیمانی طریقہ کار کا حصہ بننے سے مسلسل انکار یہی واضح کرتا ہے کہ عمران خان محض اپنی ’مقبولیت‘ کی بنا پر اقتدار حاصل کرنے کی امید نہیں رکھتے ۔ اسی لئے وہ اسمبلی کی کارروائی کا حصہ بن کر شفاف انتخابات کا راستہ ہموار کرنے کی بجائے کسی بھی طرح عسکری قیادت کو ’ راضی‘ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ البتہ عمران خان اب بھی اگر کسی غیر متوقع معجزے کے انتظار میں نہیں ہیں توگزشتہ روز فوجی قیادت کی پریس کانفرنس کے بعد خواہشوں کے اس غبارے سے ہوا نکل جانی چاہئے۔

اس پس منظر میں تحریک انصاف کا لانگ مارچ شاید پرجوش اور ولولہ انگیز تو ہوگا لیکن اسے قانونی حدود میں رکھنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ عمران خان سمیت پارٹی کے عمائدین یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ قانون کی پاسداری کی جائے گی اور لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد کی ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔ اگر پارٹی اس وعدے پر عمل درآمد کرسکی تو اس کے مستقبل اور ملکی سیاسی عمل کے لئے یہ ایک خوش آئیند بات ہوگی۔ تاہم ایسالانگ مارچ عمران خان کا مقررہ کوئی فوری ہدف حاصل نہیں کرسکے گا۔ تحریک انصاف کے چئیرمین کے طور پر اس وقت عمران خان کی سب سے بڑی پریشانی کسی بھی طرح پارٹی کو منظم رکھنا اور ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ کسی انہونی یا ناگہانی صورت حال سے بچانا ہونی چاہئے۔ یہ مقصد لانگ مارچ کو پرامن رکھنے کا وعدہ پورا کرکے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔گو کہ لانگ مارچ کے بارے میں بلند بانگ دعوے کئے گئے ہیں اور اس کی کوئی مدت بھی مقرر نہیں کی گئی تاہم تحریک انصاف نے اگر اسلام آباد کے نواح میں ہی ’دھرنا‘ دینا ہے تو اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اسے ماضی کی طرح طول د یاجاسکے گا۔ پاکستانی عوام کو البتہ مزید ایک ہفتہ کے لئے عمران خان کی پرجوش تقریریں سننے اور کسی نئے یو ٹرن کا مشاہدہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

بشکریہ کاروان
واپس کریں