دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسئلہ بری کارکردگی نہیں، کپتان نے قسمت کو راضی کرنے کے لوازمات پورے نہیں کئے !
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
پاکستان ٹیم ورلڈ کپ کے پہلے اور دوسرے میچ میں اپنی کارکردگی نہیں بلکہ قسمت سے ہار گئی۔ دونوں میچ ہارنے میں کھلاڑیوں پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والے نہیں جانتے کہ قسمت کیسے معاملات کو الٹ پلٹ کر دیتی ہے۔کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ انڈیا کو آخری تین اوور میں اڑتالیس رنز کے پہاڑ کی ضرورت تھی لیکن یہ انڈیا کی اچھی قسمت تھی کہ وائیڈ اور نوبال کے ساتھ پاکستانی بائولرز کی اچھی بالز پہ بھی چھکے پہ چھکے بھی لگتے رہے ۔اگر قسمت کا معاملہ نہ ہوتا تو جارحانہ طور پر شاٹیں لگانے والے بابر اعظم اور رضوان زمبابوے کے بائولز کو کھیلتے ہوئے گھبرائے گھبرائے کیوں نظر آتے؟ شان مسعود اچھی بیٹنگ کرتے کرتے ایک وائیڈ بال پہ لڑکھڑا کر زمین کر گرتے ہوئے سٹیمپ آئوٹ کیوں ہو جاتے؟ افتخارصرف پانچ کے سکور پر کیچ آئوٹ کیوں ہو جاتے؟چھکے مارتے ہوئے مخالف ٹیم کو دن میں تارے دکھانے والے حیدر علی ایک سیدھی بال پہ ایل بی ڈبلیو کیوں ہو جاتے؟اعتماد سے کھیلتے ہوئے محمد نواز کی شاٹ آرام سے چوکا بھی ہو سکتی تھی لیکن وہ کیچ آئوٹ کیوں ہو گئے؟ یہ سب قسمت کے چکر ہیں جسے بھولے لوگ کھلاڑیوں کی خراب کارکردگی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

کیا ہماری کرکٹ ٹیم نے آسڑیلیا روانگی سے پہلے درباروں پہ چادریں چڑ ہاتے ہوئے دعائیں مانگی تھیں؟ نہیں۔ کیا ہماری کرکٹ ٹیم نے کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑیوں کے تبلیغی لیکچر لئے تھے؟ نہیں۔ کیا ہمارے کپتان نے اپنی مرادوں کو پورا کرنے کے لئے درباروں کی چوکٹھوں پہ سجدے کئے تھے؟ نہیں۔پھر کہاں سے قسمت ہمارے ٹیم کا ساتھ دے سکتی تھی، اگر قسمت ساتھ دینے کے لوازمات پورے کئے جاتے تو ہم انڈیا سے میچ جیتتے جیتے ہار نہ جاتے بلکہ میچ ہارتے ہارتے جیت جاتے۔ اگر قسمت ہمارے ساتھ ہوتی تو زمبابوے کو ہرانے کے لئے اکیلا شاہین آفریدی ہی کافی تھا، زمبابوے کو شکست فاش سے دوچار کرنے کے لئے بابر اعظم اور محمد رضوان کی بیٹنگ ہی کافی تھی۔ لیکن قسمت کے عنصر کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ کرکٹ ٹیم ہی نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان کی حمایت کرنے والے کرکٹ شائقین کو بھی بھگتنا پڑا۔

کیا پاکستان کرکٹ بورڈ، ٹیم منیجمنٹ اور ٹیم کے کپتان اور کھلاڑیوں کو معلوم نہ تھا کہ پاکستان کے2018کے الیکشن میں کپتان کو فتح یاب کرنے کے تمام لوازمات الیکشن سے پہلے ہی پورے کر لئے گئے تھے اور ووٹ کی طاقت سے دشمن کو شکست دینے کا پورے اہتمام ہو چکا تھا۔اس کے باوجود کپتان نے قسمت کے فیصلہ کن 'فیکٹر' کو نظر انداز نہیں کیا، 'انڈر اسٹیمیٹ 'نہیں کیا۔ کس کس دربار پہ جار کر دربار کی چوکھٹ پہ سجدے نہیں کئے، کس کس دربار کے اندر جا کر وہاں کے فرش پہ گلاب کے سرخ پھولوں نہیں بچھائے،کس کس دربار پہ جا کر چادریں نہیں چڑہائیں اور اپنی مرادیں بر آنے کی دعائیں صدق دل سے نہیں مانگیں، حالانکہ الیکشن میں فتح یاب کی مکمل ' گارنٹی ' تھی۔ کیونکہ کپتا ن یہ قیمتی بات جانتا تھا کہ قسمت جیتے ہوئے کر ہرا سکتی ہے اور ہارے ہوئے کو جتوا سکتی ہے، قسمت کا بھید جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ قسمت کیا کیا گل کھلا سکتی ہے۔ جو قسمت کے اس راز کو جانتے ہیں،مانتے ہیں اور اس کے لوازمات پورے کرتے ہیں، کامیابی ان کے قدم چومتی ہے اور جو نادان اپنی کارکردگی کے زعم میں مبتلا رہتے ہیں، وہ جیتتے جیتتے ہار جاتے ہیں ، ہارتے ہارتے جیتنا ان کے نصیب میں نہیں ہوتا کیونکہ نہ تو وہ قسمت کے جادوئی اثرات کو جانتے اور مانتے ہیں اور نہ وہ مورکھ قسمت کے اثرات کو سمجھ سکتے ہیں۔

ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، اس وقت بھی اگر ٹیم منیجمنٹ آسڑیلیا میں پہنچے والے بزرگوں کے مزارات کا کھوج لگائے، ان مزارات پہ جا کر، چوکھٹوں پہ نہ صرف ماتھے ٹیکے بلکہ رو رو کر اپنی مراد پورے ہونے کی دعائیں مانگیں ، وہاں چادریں چڑہائیں ، مرادی پوری ہونے پہ ایک مخصوص تعداد میں دیگوں کا چڑھاوا چڑہانے کی نیت کریں ، ساتھ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلی عہدیدار پاکستان میں بڑے بڑے تمام درباروں پہ جا کر صدق دل سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، وہاں کی چوکھٹوں پہ سجدہ ریز ہو ں، چادریں چڑہائیں، رو رو کر دعائیں مانگیں اور مرادپوری ہونے پر چڑہاوے چڑہانے کا عزم کر لیں تو اب بھی روٹھ ہوئی قسمت پلٹ سکتی ہے، ہماری قومی ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچانے کے لئے جس جس ٹیم نے میچ جیتنا ہے ، جس جس ٹیم نے میچ ہارنا ہے اور ہم نے جس جس ٹیم سے جس جس اوسط سے میچ جیتنا ہے، سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے کہ اگر ہم قسمت کو پانے کا گر سیکھ لیں، قسمت کو اپنے حق میں کرنے کے سربستہ راز جان لیں۔

یہاں قسمت کے حوالے سے ایک پیش گوئی ابھی سے پیش کر دوں کہ کپتان پاکستان کو آزاد کرانے کے لانگ مارچ کا جہاد کرنے میں کامیاب نہیں ہو گا، کیونکہ اس نے قسمت کو راضی کرنے کے اس فیصلہ کن '' فیکٹر '' کو نظر انداز کر دیا ہے جسے اس نے2018کے الیکشن میں نظر انداز نہیں کیا تھا۔کپتان نے داتا کی نگری لاہور سے اپنے لانگ مارچ کا آغاز کیا ہے لیکن کیا کپتان نے لانگ مارچ سے پہلے درباروں پہ جا کر چادریں چڑہائی ہیں ؟ کیا مزارات پہ رو رو کر اپنی مرادیں پوری ہونے کی دعائیں مانگی ہیں؟ کیا مزارات کے فرش پہ سرخ گلابوں کو بچھایا ہے؟ اس بار کپتان نے قسمت کو قابو کرنے کے اصل لوازمات کو نظر انداز کر دیا ہے، اس لئے اس کپتا ن جیتتے جیتتے ہار جائے گا، اس کی ہار ، اس کی شکست آسمانوں پہ لکھ دی گئی ہے۔ یہی بات قومی کرکٹ ٹیم کی انتظامیہ اور کپتان بابر اعظم کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ قسمت کو اپنے حق میں کرنے پر بھر پور توجہ دیں، ''پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے'' ، اور پھر ہماری ٹیم ہارتے ہارتے سیمی فائنل کیا چیز ہے فائنل میچ بھی جیت جائے گی۔
واپس کریں