دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا ملکی سیاست میں کچھ بڑا ہونے والا ہے؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ قومی مفاد کے لئے تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں حالانکہ عمران خان نے چار برس تک مجھ سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کیا۔ وزیر اعظم کا یہ بیان ایک ایسے ماحول میں سامنے آیا ہے جب قومی سیاسی ایجنڈے پر مفاہمت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ عمران خان نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ ’چوروں کی غلامی سے بہتر، میں مر جانا چاہتا ہوں‘ ۔’چوروں‘ کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت یا مفاہمت سے انکار کے اس دو ٹوک اعلان کے باوجود تحریک انصاف کے لیڈر فواد چوہدری نے اشارہ دیا ہے کہ حکومت کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے ایک سوال کے جوب میں کہا کہ ’صدر صاحب بات چیت کر رہے ہیں‘ ۔ تصادم کے موجودہ سیاسی ماحول میں مفاہمت و مصالحت کی کوئی بھی خبر امید افزا اور ملکی جمہوری سیاست کے لئے خوش آئند ہے۔ ملک کو گمبھیر معاشی مسائل کا سامنا ہے، عالمی سطح پر سفارتی شعبہ میں درپیش چیلنجز اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن عمران خان کی سیاسی مہم جوئی کی وجہ سے ملک میں ماحول بدستور دھماکہ خیز ہے۔ خاص طور جلد ہی لانگ مارچ کی کال دینے کی باتیں بھی تسلسل سے کی جا رہی ہیں اور عمران خان سے منسوب اس بیان کا بھی میڈیا سے لے کر سپریم کورٹ تک میں حوالہ دیا جا رہا ہے کہ ’تحریک انصاف کا لانگ مارچ حقیقی آزادی کے لئے جہاد ہے‘ ۔

البتہ آج سپریم کورٹ نے حکومت کی یہ درخواست مسترد کردی کہ وہ ایک عبوری حکم میں عمران خان کو لانگ مارچ سے باز رہنے کی تلقین کرے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس لانگ مارچ کو تقدیس کا لبادہ پہنا کر لوگوں کا سیلاب اسلام آباد کی طرف لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استہزائیہ انداز میں دریافت کیا کہ ’کہاں ہے لوگوں کا سیلاب؟ ہمیں تو دکھائی نہیں دیتا‘ ۔ عدالت عظمی نے حکومت کی درخواست مسترد کرنے کے باوجود اس سال 25 مئی کے لانگ مارچ کے سلسلہ میں دیے گئے حکم کو برقرار رکھا۔اس حکم میں تحریک انصاف کو ریڈ زون سے باہر ایک مخصوص جگہ پر احتجاج کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور ڈی گراؤنڈ کی طرف جانے سے روکا گیا تھا۔ تاہم اس موقع پر عمران خان تو لانگ مارچ معطل کر کے اپنے گھر چلے گئے تھے لیکن تحریک انصاف کے مشتعل جتھوں نے ڈی گراؤنڈ پہنچنے کی کوشش کی تھی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ درختوں کو جلا کر ماحولیات کو آلودہ کرنے کی افسوسناک حرکتیں بھی کی تھیں۔ انہی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ سے استدعا کی تھی کہ ایسی بدمزگی اور لاقانونیت سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ قبل از وقت حکم جاری کردے۔ تاہم بنچ میں شامل ایک جج نے نشاندہی کی کہ عدالت کسی ایسے وقوعہ کے بارے میں کیسے کوئی حکم دے سکتی ہے جو ابھی رونما ہی نہیں ہوا۔

بظاہر سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے کسی ممکنہ لانگ مارچ کی روک تھام کے لئے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے سے انکار کیا ہے لیکن دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیا کہ ’حکومت قانون کے مطابق اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں تمام انتظامی اختیارات بروئے کار لانے کا حق رکھتی ہے‘ ۔ انہوں نے واضح کیا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عدالت صورت حال کے مطابق معاملہ پر غور کرنے اور حکم جاری کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ’اگر کسی بھی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے‘ ۔چیف جسٹس کا یہ اشارہ براہ راست عمران خان کی دھمکیوں کی جانب ہی ہے کیوں کہ وہی دارالحکومت پر دھاوا بول کر حکومت کو فوری انتخابات کروانے پر مجبور کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ نے اگرچہ حکم امتناعی کے لئے حکومتی درخواست قبول نہیں کی لیکن ریمارکس کی صورت میں یہ عدالتی پوزیشن واضح کی گئی ہے کہ جمہوری حق اور قانون شکنی کے درمیان حد فاصل قائم کی جائے گی اور سپریم کورٹ بہر صورت قانون شکنی کے کسی فعل کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس معنوں میں سپریم کورٹ نے عمران خان کی دھمکیوں کے جواب میں حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

عمران خان بار بار یہ وعدہ کرنے کے باوجود کہ وہ جلد ہی ’حقیقی آزادی‘ کے لئے لانگ مارچ کی کال دینے والے ہیں، ابھی تک لانگ مارچ کے کسی پروگرام کا اعلان نہیں کرسکے۔ فواد چوہدری نے آج اپنی گفتگو میں ایک طرف بات چیت کا اشارہ دیا ہے تو دوسری طرف یہ بھی واضح کیا ہے کہ اکتوبر کے دوران لانگ مارچ کا امکان نہیں ہے۔ البتہ خبروں کے مطابق عمران خان نے مختلف علاقائی لیڈروں سے ملاقاتوں میں لانگ مارچ کے لئے تیاریوں کا جائزہ لیا ہے۔ تاہم اس احتجاجی مارچ کے لئے حتمی منصوبہ کے خد و خال سامنے نہیں ہیں۔ بلکہ عمران خان خود ہی یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ صرف انہیں اصل پروگرام کا پتہ ہے۔ انہوں نے کسی بھی معاون کے ساتھ اس معاملہ میں تفصیلات طے نہیں کی ہیں۔اس بیان سے جہاں لانگ مارچ کی سنجیدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے تو اس کے ساتھ ہی یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ عمران خان اپنے قریب ترین ساتھیوں کی وفاداری کے بارے میں بھی شبہات کا شکار ہیں۔ پھر ایک اہم سیاسی احتجاج کے لئے اگر پارٹی کے کسی فورم پر جمہوری انداز میں بحث مباحثہ کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنے کا طریقہ اختیار کرنے کی بجائے، فرد واحد اپنی مرضی ٹھونس کر کوئی بڑا سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس طرز عمل کو کسی سیاسی پارٹی کی طاقت کی بجائے کمزوری اور بے یقینی ہی سمجھنا چاہیے۔

اس دوران الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں محفوظ کیا ہوا فیصلہ جمعہ کو سنانے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے دفتر کی سیکورٹی اور سخت حفاظتی انتظامات جیسی ہدایات جاری کی ہیں، ان سے یہ گمان ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کوئی بڑا فیصلہ بھی سنا سکتا ہے۔ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔ ریفرنس کے مطابق عمران خان نے وزیر اعظم کے طور پر ملنے والے غیر ملکی تحائف کی تفصیلات پوشیدہ رکھیں اور انہیں اپنے اثاثوں میں بھی ظاہر نہیں کیا۔ اس طرح وہ آئین کی شقات 62 اور 63 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن نے اگر عمران خان کو ان شقات کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا تو وہ انہیں کوئی عوامی عہدہ سنبھالنے، اسمبلی کا رکن رہنے یا انتخاب لڑنے کا نا اہل بھی قرار دے سکتا ہے۔

عمران خان الیکشن کمیشن پر جانبداری کے الزامات عائد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انہیں نا اہل قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اور مائنس ون کے دیرینہ فارمولے پر عمل کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے پاکستانی سیاست میں نوا از شریف کی نا اہلی اور الطاف حسین پر پابندی کی وجہ سے یہ اصطلاح استعمال کی جاتی رہی ہے۔ تاہم تاریخ کا سبق تو یہی ہے کہ مائنس ون جیسے فارمولے پر عمل یا کسی سیاسی لیڈر کو انتخابی سیاست سے علیحدہ کرنے کا کوئی طریقہ مفید اور کارآمد نہیں ہوتا۔ خاص طور سے نواز شریف کو کمزور بنیادوں پر تاحیات نا اہل قرار دینے سے ان کی سیاسی حیثیت میں تو کمی واقع نہیں ہوئی لیکن ملکی بہتری کے لئے انہیں حالات پر براہ راست اثر انداز ہونے سے روک دیا گیا جس کا نقصان بہر حال ملک و قوم کو برداشت کرنا پڑا ہے۔عمران خان کی مقبولیت دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کی طرف سے نا اہلی کا کوئی فیصلہ ملکی سیاسی حالات کو بری طرح متاثر کرے گا۔ تحریک انصاف اگرچہ الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو بددیانت اور جانبدار قرار دیتی رہی ہے۔ پارٹی کی طرف سے گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر کی برطرفی کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کیا گیا ہے۔ تاہم یہ ریفرنس اس حقیقت کے بعد دائر ہوا ہے جس میں الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی آٹھ اور پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں پر کامیاب اور شفاف ضمنی انتخاب منعقد کروائے ہیں۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے 6 اور پنجاب اسمبلی کے 2 حلقوں میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ اس شاندار کامیابی کے باوجود عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے الیکشن کمیشن پر نکتہ چینی جاری رکھی۔ تاہم انتخابات کے پر امن انعقاد اور تحریک انصاف کی واضح کامیابی کے بعد عام طور سے یہی تاثر مستحکم ہوا ہے الیکشن کمیشن کسی طرف سے کسی دباؤ میں نہیں ہے اور وہ دیانت داری سے شفاف انتخابات منعقد کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس صورت میں الیکشن کمیشن یا چیف الیکشن کمشنر پر بدستور تنقید کو خاطر خواہ پذیرائی نصیب نہیں ہو سکی۔

ان حالات میں توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کے خلاف فیصلہ دینے کے لئے الیکشن کمیشن کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ضمنی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن اگر ٹھوس شواہد کی بنا پر متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے عمران خان کو نا اہل قرار دے تو اس فیصلہ کو متعصبانہ کہنا آسان نہیں ہو گا۔ اگر عمران خان کے خلاف شکایات کو مسترد کر دیا گیا تو یہ تاثر مضبوط ہو گا کہ ملکی سیاست میں کوئی قانون طاقت ور کا راستہ نہیں روک سکتا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے نا اہلی کا کوئی فیصلہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے منصوبہ کو بھی متاثر کر سکتا ہے اور پارٹی میں قیادت کا بحران پیدا ہونے سے ٹوٹ پھوٹ کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی عمران خان کو احتجاج کے لئے ایک نیا عذر بھی ہاتھ آ سکتا ہے جو ملکی سیاست میں بے یقینی اور بحران کو شدید کرے گا۔

(بشکریہ کاروان ناروے)

واپس کریں