دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اعظم سواتی کی گرفتاری، پیادہ پکڑ کر سیاسی شہ مات کی ناقص امید
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کے بعد تحریک انصاف کی صفوں میں بے چینی قابل فہم ہے۔ اس ایک فیصلہ سے کرپشن کے خلاف پارٹی کے بیانیہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ عمران خان سے لے کر فواد چوہدری اور دیگر لیڈروں کے بیانات نئی صورت حال پر پارٹی کی مایوسی کا اظہار ہیں۔ البتہ سینیٹر اعظم سواتی نے آرمی چیف پر اس معاملہ میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ اسی لئے اب وہ فوج کے خلاف پروپیگنڈا کے الزام میں ایف آئی کی تحویل میں ہیں۔اعظم سواتی کی ٹویٹ میں یہی عندیہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جنرل باجوہ نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ایک منصوبہ بنایا اور اس منصوبہ کے تحت پہلے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کروا کے شہباز شریف کی قیادت میں ملک کے بدعنوان سیاسی عناصر کو ملک کی باگ ڈور سونپی گئی اور اب انہیں مختلف مقدمات میں ریلیف دے کر جنرل باجوہ کے منصوبہ کو مکمل کیا جا رہا ہے۔ اسی لئے اعظم سواتی نے خیال ظاہر کیا کہ ’باجوہ صاحب، آپ کو اور آپ کے کچھ لوگوں کو مبارکباد۔ آپ کا منصوبہ واقعی کام کر رہا ہے اور ملک کی قیمت پر تمام مجرم آزاد ہو رہے ہیں۔ ان ٹھگوں کی آزادی سے، آپ نے کرپشن کو جائز قرار دے دیا۔ اب آپ اس ملک کے مستقبل کی کیا پیش گوئی کرتے ہیں‘ ۔

فوج کے سربراہ کے خلاف سیاسی نظریہ کی بنیاد پر اس قسم کا بیان ہتک آمیز، بے مقصد اور افسوسناک ہے۔ کسی صورت اس کی تائید نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی سیاسی لیڈروں کو ایسے طرز بیان کو سیاسی مباحث کا حصہ بنانا چاہیے۔ البتہ اس پہلو پر گفتگو سے پہلے یہ عرض کرنا اہم ہے کہ موجودہ سیاسی صورت حال میں حکومتی لیڈروں کو چور لٹیرے قرار دے کر پاک فوج پر ان کی سرپرستی کرنے کے الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف ملک کے انتظامی و عدالتی نظام کو استعمال میں نہیں لانا چاہیے۔ اس سے نہ تو فوج کی توقیر میں اضافہ ہو گا اور نہ ہی موجودہ سیاسی دلدل سے باہر نکلا جا سکے گا۔اعظم سواتی کا ٹویٹ اور ان کی پارٹی کے لیڈروں یا ان کے ہمدردوں کے ملتے جلتے بیانات درحقیقت شدید مایوسی اور ملکی نظام پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار ہیں۔ تحریک انصاف کے اس رویہ کو عوام پر آشکار کرنے کے لئے عدالتی ہتھکنڈے استعمال کرنے سے اور شہباز گل یا اعظم سواتی جیسے ’شہید‘ پیدا کر کے درحقیقت عمران خان کا کام آسان کیا جائے گا۔ وہ ان مثالوں سے عوام کو مزید دھوکہ دینے اور سیاسی ماحول کو مزید زہر آلود کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لئے حکومت کو سنجیدگی سے اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی غیر سنجیدہ بیان بازی پر کس حد تک سرکاری وسائل اور عدالتی نظام کو زیر بار کیا جاسکتا ہے۔

اعظم سواتی کے بیان کے سیاسی پہلو سے قطع نظر اس معاملہ میں اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ عسکری اداروں نے طویل عرصہ تک سیاسی معاملات میں براہ راست مداخلت کی ہے۔ اب پاک فوج کی طرف سے بار بار اعلان کیا جا رہا ہے کہ وہ مکمل طور سے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ حتی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دورہ واشنگٹن کے دوران بھی اس عہد کا اعادہ کیا اور پاکستانی سفارت خانہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ فوج ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی۔یہ اعلانات اگرچہ خوش آئند ہیں لیکن سول معاملات میں فوج کی مداخلت کی تاریخ اتنی طویل اور پیچیدہ ہے کہ اس بارے میں آرمی چیف یا آئی ایس پی آر کے ایک دو بیانات سے فضا صاف نہیں ہو سکتی اور نہ ہی شکوک و شبہات رفع ہوسکتے ہیں۔ پاک فوج پر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کروانے اور شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کی ذمہ داری یوں بھی عائد کی جاتی ہے کہ تحریک انصاف کے انہی گروہوں کی طرف سے وفاداریاں تبدیل کرنے کی وجہ سے عمران خان اقتدار سے محروم ہوئے تھے، جنہیں ملکی سیاست میں براہ راست عسکری اداروں کی ’پراکسی‘ قوتیں سمجھا جاتا ہے۔یہ ممکن ہے کہ یہ تاثر گمراہ کن ہو۔ اور کسی جواز کے بغیر ہی بعض چھوٹے سیاسی گروہوں اور آزاد ارکان اسمبلی کے بارے میں یہ قیاس کر لیا گیا ہو کہ وہ اوپر سے موصول ہونے والے اشاروں پر اپنی حکمت عملی طے کرتے ہیں۔ لیکن جب 2018 میں عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے والے عناصر ہی 2022 میں نہ صرف ان کے زوال کا سبب بنیں بلکہ مخالف سیاسی گروہ بندی کو اقتدار حاصل کرنے میں معاونت کریں تو ایسی افواہیں یقین میں تبدیل ہونے لگتی ہیں۔

یہ بھی ملکی سیاسی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس وقت حکومت کرنے والی پارٹیوں کے لیڈر 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے رہے تھے۔ یہ پھبتی بھی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزاد کی تھی کہ عمران خان نامزد وزیر اعظم ہیں۔ اس کے بعد کبھی ہائبرڈ نظام کے نام پر اور کبھی براہ راست تحریک انصاف کو سیاسی قوت فراہم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے، فوج پر سیاسی انجینئرنگ کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔تاہم عام طور سے سیاسی لیڈر آرمی چیف یا فوج کا براہ راست نام لینے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ اسی لئے ماضی قریب کی سیاسی لغت میں درپردہ قوتیں، محکمہ زراعت، پراسرار ہاتھ یا خلائی مخلوق جیسے الفاظ کو سیاست میں عسکری اداروں کے داؤ پیچ بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سچ مان لینے میں ہرج نہیں ہونا چاہیے کہ ان بالواسطہ الفاظ کا مخاطب بھی فوج اور اس کے سربراہ ہی رہے ہیں کیوں کہ یہ یقین بہر حال ہمہ وقت موجود رہا ہے کہ فوج ایک ڈسپلنڈ ادارہ ہے اور اپنے سربراہ کی رضامندی کے بغیر کسی قسم کی کارروائی میں حصہ دار نہیں بن سکتا۔

تحریک انصاف کے قائدین اپنی طبع اور سیاسی تربیت کے لحاظ سے ان باتوں کو واضح الفاظ میں کہنے لگے ہیں جو پہلے استعاروں یا اشاروں میں کہی جاتی رہی ہیں۔ اس لئے اعظم سواتی جیسے مجبور اور سیاسی لحاظ سے ’ناخواندہ‘ لوگوں کو قانون کی چکی میں پیسنے یا عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلوانے سے فوج کی عزت میں اضافہ یا موجودہ قیادت کو احترام دلوانے کا مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ چند ماہ پہلے تک سیاسی معاملات میں عسکری قیادت کی مداخلت کے تناظر میں فوج کے کردار پر تنقید قابل فہم بھی ہے اور اسے برداشت کرنے کا مزاج پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔فوج کا حقیقی وقار بحال کرنے کا طریقہ وہی ہے جس کا اعلان جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے کیا گیا ہے کہ فوج نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس عزم پر قائم رہنے اور آہستہ آہستہ فوجی اداروں کو سیاسی معاملات سے پوری طرح دور کر کے ہی بہتر سیاسی ماحول پیدا ہو سکے گا۔ تاہم اس سال کے شروع تک تحریک انصاف کے سہولت کار کے طور پر جنرل باجوہ کی سربراہی میں فوجی اداروں نے جو کردار ادا کیا ہے، موجودہ بے چینی اس سے محرومی کا براہ راست اظہار ہے۔ اپنی غلطیوں کی یہ قیمت تو فوجی قیادت کو بہر صورت ادا کرنا ہی پڑے گی۔

تاہم اس بحث میں عمران خان اور تحریک انصاف ملک کے عدالتی نظام کو نشانہ بنا کر یہ اصول منوانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ جن افراد، لیڈروں یا عناصر کو بدعنوان اور چور یا ڈاکو قرار دیں، انہیں عدالتی نظام میں بھی گناہ گار تسلیم کر لیا جائے۔ وہ جس شخص کے بارے میں کہہ دیں کہ اس نے اربوں ڈالر چوری کیے ہیں یا قومی خزانہ لوٹا ہے، اس کے بارے میں اس بات کو پتھر پر لکیر مان لیا جائے۔ الزام تراشی کا یہ مزاج اگرچہ پاکستان کی قومی سیاست کا ہمیشہ سے ہی حصہ رہا ہے لیکن عمران خان سے پہلے اس کا اظہار اور اس پر اصرار اتنی شدت اور ڈھٹائی سے دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔اس اصول کے تحت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو سات تو کیا سات سو خون معاف ہیں۔ ملک کا باقی سارا نظام شفاف اور دیانت دار ہے بس صرف وہ سیاست دان چور اچکے ہیں جو عمران خان کو سیاسی لحاظ سے چیلنج کرتے ہیں۔ یا وہ تمام سرکاری اہلکار اور عدالتیں بدعنوانی کی سرپرست کہی جاتی ہیں جو عمران خان اور ان کے حواریوں کی مرضی کے خلاف فیصلے صادر کرتی ہیں۔ اسی ناقص اصول کے تحت اب شہباز شریف کو بری کرنے پر لاہور کی عدالت کو معتوب قرار دیا جا رہا ہے اور اسی نظریہ کے تحت اسحاق ڈار کی ضمانت اور مریم نواز کی بریت ناقابل معافی کہی جا رہی ہے۔حالانکہ اگر اصول انصاف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کسی پر الزام لگا دینے سے کوئی معاملہ طے نہیں ہوجاتا بلکہ کوئی عدالتی فورم ہی اس الزام کی سچ یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔ لاہور کی عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف ایف آئی کے کیس کو کمزور اور ناقص سمجھتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کو بری کرنے پر پورے عدالتی نظام کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ عدالتوں میں بھی نقائص ہوں گے اور وہ بھی کسی نہ کسی سطح پر دباؤ کا شکار ہوتی ہوں گی۔

اس بارے میں پہلے بھی معاملات سامنے آتے رہے ہیں۔ نواز شریف کو سزا دینے والے احتساب عدالت کے مرحوم جج ارشد ملک کے بیان کے علاوہ سابق چیف جسٹس ثاقب کے بارے میں سامنے آنے والے انکشافات یا اسلام ہائی کورٹ کے سابق سینئر جج شوکت صدیقی کے الزامات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ اس تناظر میں قانونی اصلاح اور نظام کی درستی کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں لیکن اس اصول کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ کسی حکومت کے قائم کردہ مقدمات میں الزامات کو ہر عدالت ہوبہو تسلیم کر لے۔ یوں تو ہر حکومت عدالتی نظام کو اپنی مرضی و خواہش کا تابع رکھنے کی کوشش کرے گی۔ پہلے جو کام عمران خان کی حکومت کرنا چاہتی تھی، اب شہباز حکومت کی حکومت کی بھی وہی خواہش ہوگی۔ اس طریقہ کو ختم کرنے کے لئے الزام تراشی سے بالا ہو کر وسیع تر سیاسی مفاہمت اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔عمران خان کا سیاسی فلسفہ بہت سادہ اور آسان ہے۔ کہ وہ خود ایماندار ہیں، اس لئے ان کے سارے مخالفین بدعنوان اور قومی خزانے پر ڈاکا ڈالنے والے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ عمران خان نہ تو اپنے دور حکومت میں اپنا موقف ثابت کرسکے اور نہ ہی اب وہ اپنی دیانت کی گواہی اپنے کردار سے دینے پر آمادہ ہیں۔ اس کی بجائے وہ الزامات کے طوفان سے سیاسی میدان ہی نہیں بلکہ عسکری اداروں کو بھی زیر کرنا چاہتے ہیں۔ اعظم سواتی اس خواہش کی تکمیل میں نشانے پر آنے والے معمولی پیادے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیادوں کو پکڑنے سے سیاسی شہ مات کی امید لگانے والی حکومت کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں