دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آڈیو لیکس تحقیقات
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
آڈیو لیکس تحقیقات کے بارے میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ’تنازعہ حل ہو گیا ہے‘ ۔ اس کام میں کوئی غیر ملکی ایجنسی ملوث نہیں تھی بلکہ وزیر اعظم ہاؤس کے بعض اہلکاروں نے مالی فائدے کے لئے یہ کام کیا تھا۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں وزیر داخلہ نے یہ بیان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے اس ٹویٹ پیغام کے فوری بعد دیا ہے جس میں انہوں نے اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

آڈیو لیکس اسکینڈل میں وزیر اعظم ہاؤس سے ہونے والی ٹیلی فون گفتگو اور وہاں پر ہونے والی بات چیت پر مشتمل کچھ ریکارڈنگ سامنے لائی گئی ہیں۔ پہلے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کی گفتگو کے کچھ کلپس ’لیک‘ کیے گئے تاہم اس کے بعد یکے بعد دیگرے عمران خان کی اپنے ساتھیوں سے ایسی گفتگو سامنے لائی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے سفارتی مراسلہ کے معاملہ کو جان بوجھ کر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ ایک آڈیو میں وہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے اسمبلی ارکان خریدنے کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔ یہ آڈیو کلپس سامنے آنے کے بعد مسلسل اس اندیشے کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے کہ ڈارک نیٹ مارکیٹ میں کئی گھنٹوں پر مشتمل گفتگو میسر ہے جسے فروخت کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں عمران خان نے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حقیقت سامنے آنی چاہیے کہ ملک کی کون سی ایجنسی وزیر اعظم کے گھر اور دفتر کے فون ریکارڈ کرتی ہے، جسے ہیک کر کے بعد میں لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

اس سے پہلے قومی سلامتی کمیٹی وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو لیک ہونے کے معاملہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کرچکی ہے۔ اس کمیٹی کی سربراہی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اسی معاملہ میں حکومت نے دو علیحدہ کمیٹیاں بھی قائم کی ہیں۔ ایک کمیٹی آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندوں پر مشتمل ہے اور جبکہ ایف آئی اے کی نگرانی میں ایک ٹیم وزیر اعظم ہاؤس سے امریکہ سے پاکستانی سفیر کے متنازعہ سائفر کی نقل گم ہو جانے کے معاملہ کی تحقیقات کر رہی ہے۔

حکومت نے آڈیو لیکس کے بارے میں متعدد اعلیٰ سطحی کمیٹیاں بنا کر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تھا اور بظاہر یہ دکھائی دینے لگا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت اس معاملہ کی تہ تک پہنچنے اور قصور واروں کو انجام تک پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاہم وزیر داخلہ جو تحقیقات کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی سربراہی بھی کر رہے ہیں، کے تازہ بیان سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ رانا ثنا اللہ کی حد تک حکومت اس معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ان آڈیو لیکس سے عمران خان کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ مقصود تھی۔ اب یہ مقصد حاصل ہونے کے بعد اس معاملہ کو ایک سرسری بیان سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

آڈیو لیکس کا معاملہ براہ راست قومی سلامتی کے معاملات سے جڑا ہوا ہے۔ ان لیکس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر میں ہونے والی گفتگو کو باقاعدہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے گزشتہ روز یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ جب وہ وزیر اعظم تھے تو بنی گالہ میں ان کے پرائیویٹ فون کو بھی خفیہ طور سے ریکارڈ کیا جاتا تھا۔ انہوں نے اس شبہ کا اظہار بھی کیا تھا کہ اس معاملہ میں کوئی قومی ایجنسی ملوث ہے۔ بعد میں ہیکرز نے اس ریکارڈنگ تک رسائی حاصل کی۔ عمران خان نے اسی شبہ کی بنیاد پر عدالت جانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب یہ تاثر عام کیا جائے کہ ملک کے وزیر اعظم کا دفتر اور گھر بھی محفوظ نہیں ہے تو اس سے ملکی راز افشا ہونے اور قومی سلامتی کو اندیشہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لئے ان عناصر کا تعین کرنا بے حد ضروری ہے۔

عمران خان جس عذر پر ملکی ایجنسیوں اور وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی ریکارڈنگ کے بارے میں شبہات کا اظہار کر رہے ہیں، ان ہی بنیادوں پر دو ہفتے قبل قومی سلامتی کمیٹی نے اس معاملہ کی تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا تاکہ اس کی تہ تک پہنچا جائے۔ ان تحقیقات سے ٹھوس معلومات سامنے آنے کی امید کی جا رہی تھی اور یہ توقع تھی کہ ان عناصر کی روک تھام ہو سکے گی جن کی دسترس سے وزیر اعظم کا دفتر اور رہائش بھی محفوظ نہیں ہے۔ وہاں ہونے والی گفتگو کو نہ صرف ریکارڈ کیا جاتا ہے بلکہ مناسب وقت پر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے یا کسی ناپسندیدہ لیڈر کو زک پہنچانے کے لئے اسے آڈیو لیکس کی صورت میں مارکیٹ بھی کر دیا جاتا ہے۔ ایک خود مختار اور ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کے لئے یہ انتہائی پیچیدہ اور سنگین صورت حال ہے۔ اب وزیر داخلہ نے تحقیقات کے نتیجہ سے آگاہ کرتے ہوئے قوم کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اس میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ وزیر اعظم ہاؤس کے بعض ملازمین نے مالی فائدے کے لئے ریکارڈنگ کر کے مارکیٹ میں فروخت کردی۔

رانا ثنا اللہ کا یہ بیان اس سنگین معاملہ میں غیر ذمہ داری اور بے احتیاطی کی افسوسناک مثال ہے۔ اول تو اس اہم قومی معاملہ پر ایک ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو کے دوران یہ انکشاف کرنا مناسب نہیں تھا بلکہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر انہیں باقاعدہ پریس کانفرنس یا سرکاری طور سے جاری اعلامیہ میں یہ معلومات فراہم کرنا چاہئیں تھیں۔ ثانیاً یہ وضاحت ناقابل قبول ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کے بعض ملازمین نے مالی فائدے کے لئے کسی چھوٹے سے ڈیوائس کی مدد سے ریکارڈنگ کی اور تمام تر سیکورٹی اور نگرانی کے باوجود اس ڈیوائس کو وزیر اعظم ہاؤس سے اسمگل کرنے اور اس پر ریکارڈ آوازوں کو نامعلوم ذرائع سے مارکیٹ کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ اور کئی سال تک وزیر اعظم ہاؤس کی سیکورٹی پر مامور عملہ اور میکنزم اس غیر قانونی اور قومی مفاد کے برعکس حرکت کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ وزیر داخلہ کے اس بیان سے اس سوال کا جواب تو سامنے نہیں آیا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں کون سے عناصر ریکارڈنگ کرتے ہیں البتہ وزیر اعظم ہاؤس کے اسٹاف، نگرانی اور وہاں نصب برقی آلات کی کارکردگی کے بارے میں متعدد نئے سوالات سامنے آئے ہیں۔

خاص طور سے حکومت اگر وزیر اعظم ہاؤس میں ریکارڈنگ کی ’حقیقت‘ تک پہنچ ہی گئی تھی تو وزیر داخلہ کو اس کا انکشاف سرسری طور سے کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ کیا وجہ ہے کہ اس سنگین جرم میں ملوث افراد کا نام ظاہر نہیں کیا گیا یا یہ اطلاع فراہم نہیں کی گئی کہ اس کام میں کتنے لوگ کب سے ملوث تھے اور انہیں اس سلسلہ میں کون سہولت فراہم کر رہا تھا۔ اس چھوٹے سے ’ڈیوائس‘ کی مدد سے گھر کے ان بھیدیوں نے کس کس وزیر اعظم کی گفتگو ریکارڈ کی ہے اور کیا رانا ثنا اللہ اور ان کے معاونین، ان افراد کو پکڑنے کے علاوہ اس تمام ریکارڈنگ اور اس مقصد کے لئے استعمال کیے گئے ڈیوائس برآمد کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ یا یہ لوگ اب بھی وزیر اعظم ہاؤس میں بدستور ریکارڈنگ کر رہے ہیں اور وزیر داخلہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’تنازعہ حل کر لیا گیا ہے ۔

وزیر اعظم ہاؤس سے معلومات کی ریکارڈنگ اور چوری ایک سنگین معاملہ ہے جسے قومی مفاد کی حفاظت کے نقطہ نظر سے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے رانا ثنا اللہ کا بیان اس سنجیدگی اور احساس ذمہ داری سے عاری معلوم ہوتا ہے۔ یہ بیان چونکہ عمران خان کے عدالت سے رجوع کرنے کے اعلان کے فوری بعد سامنے آیا ہے، اس لئے اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ رانا ثنا اللہ نے حکومت کی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے اپنے تئیں یہ ’جوابی حملہ‘ کیا ہو۔ لیکن وزیر داخلہ کے طور پر انہیں یہ احساس کرنا چاہیے تھا کہ اس حیثیت میں انہیں قومی سلامتی سے متعلق ایک اہم معاملہ پر غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ اگرچہ یہ معاملہ سیاسی لحاظ سے اہم ہے کہ ان آڈیو لیکس میں کون سا وزیر اعظم کس موضوع پر کیا بات کرتا ہوا پکڑا گیا ہے لیکن وزیر اعظم ہاؤس کی سائبر سیکورٹی اس میں سب سے ضروری معاملہ ہے۔ تاہم وزیر داخلہ آڈیو لیکس کے سوال پر سیاست کرتے دکھائی دیتے ہیں اور قومی سلامتی کے پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

اسی لئے وزیر داخلہ کے بیان کا یہ حصہ بھی ناقابل قبول اور غیر ضروری ہے کہ تحقیقات سے پتہ چل گیا ہے کہ اس میں کوئی غیر ملکی ایجنسی ملوث نہیں ہے۔ رانا ثنا اللہ کو خبر ہونی چاہیے کہ اس معاملہ میں کسی کو بھی کسی غیر ملکی ایجنسی پر شبہ نہیں تھا بلکہ اس اندیشے کا اظہار سامنے آیا تھا کہ اگر وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو ریکارڈ کر کے بعد افشا کی جا سکتی ہے تو پاکستان کے اعلیٰ ترین دفتر کو غیر ملکی ایجنٹوں کی دسترس سے کیسے محفوظ رکھا جا سکے گا۔ وزیر داخلہ کے اس انکشاف کے بعد کہ اس میں عملہ کے بعض بدعنوان لوگ ملوث تھے، یہ سوال زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ پھر تو غیر ملکی ایجنٹ ایسے بدعنوان اور لالچی عناصر کی مدد سے کوئی بھی مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں وزیر اعظم ہاؤس میں کام کرنے والے عملہ کا چناؤ اور تعیناتی کرنے والے نظام پر بھی سوالیہ نشان عائد ہوتا ہے۔ ابھی تک دو وزرائے اعظم کی باتیں منظر عام پر آئی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ متعلقہ ’بدعنوان افراد‘ کسی رکاوٹ کے بغیر ایک کے بعد دوسرے وزیر اعظم کے دور میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے یہ بے حد سنگین صورت حال ہے۔رانا ثنا اللہ کو درحقیقت اس بات کا جواب دینا چاہیے تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ریکارڈنگ کیا واقعی ایجنسیوں کا کام ہے یا گفتگو اور ٹیلی فون ریکارڈ کرنا معمول کی کارروائی ہے، تاہم اسے بعض ہیکرز نے اسے چرا کر عام کر دیا۔ عمران خان نے ملکی ایجنسیوں پر وزیر اعظم کی نگرانی کرنے کا الزام لگایا ہے۔ رانا ثنا اللہ اس الزام کا جواب دینے میں ناکام رہے ہیں۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں