دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنرل باجوہ کا پیغام، علاقے میں امن اور ملک میں آئین کی بالادستی مگر کیسے؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کے عوام کو بھی زندگی میں خوشحالی اور اعلیٰ معیار سے استفادہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ کاکول میں نوجوان کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے ایسا میکنزم تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس سے باہمی تنازعات حل کر کے ہمسایہ ممالک کے درمیان پرامن ماحول پیدا کیا جا سکے۔ تاکہ اس علاقے کے عوام بھی ترقی کی دوڑ میں باقی دنیا کے ساتھ شامل ہو سکیں۔ یہ باتیں خوشنما ہونے کے ساتھ ہی یہ سوال بھی سامنے لاتی ہیں کہ یہ مقصد کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟

کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئین کی بالادستی کی ضرورت پر زور دیا اور نوجوان فوجی افسروں کو تلقین کی کہ وہ ’جھوٹی خبروں اور فیک نیوز سے گمراہ نہ ہوں۔ جمہوری اداروں کا احترام کریں اور اپنے ملک کی سالمیت، خود مختاری اور آئین کے لئے جان تک قربان کرنے کے لئے تیار رہیں۔ ہمارا پیغام واضح ہے کہ مسلح افواج اپنے شہریوں کی مدد سے کسی ملک، گروپ یا طاقت کو پاکستان کو سیاسی یا معاشی لحاظ سے غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دیں گی‘ ۔ ملک کی حفاظت کے عزم کا اظہار کرنے سے قبل البتہ جنرل باجوہ نے امن کی شدید خواہش کا اظہار کیا اور بتایا کہ تمام اختلافات حل کرنے کا کوئی طریقہ تلاش کرنا ہی اس خطے کے عوام کی بہبود و بہتری کا راستہ ہے۔ اسے بہر صورت تلاش کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ پیغام اگرچہ نوجوان فوجی کیڈٹس سے خطاب میں دیا گیا ہے لیکن واضح طور سے اس کے مخاطب پاکستان کے علاوہ بھارت اور دیگر ہمسایہ ممالک کے سیاسی قائدین تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ شعلوں کو اپنے خطے سے دور رکھیں۔ ہمیں طریقہ کار بنا کر باہمی معاملات حل کرنے کے لیے امن کو موقع دینا چاہیے، ہمیں ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے مل کر بھوک، غربت، جہالت سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں مل کر تیزی سے بڑھتی آبادی، ماحولیاتی تبدیلی اور بیماریوں کا مقابلہ کرنا چاہیے‘ ۔

جن مسائل اور مشکلات کی طرف جنرل باجوہ نے اشارہ کیا ہے، وہ اہم اور مشکل چیلنجز ہیں اور کسی حد تک دنیا کے سب ممالک اس صورت حال کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن خاص طور سے جنوبی ایشیا کے ممالک پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں، بات چیت کرنے سے انکار کرتے ہیں، باہمی تعلقات تاریخ کی بدترین سطح پر ہیں اور دو طرفہ تجارت اور ثقافتی تبادلہ تو دور کی بات ہے، دونوں ملکوں کے قائدین ایک دوسرے کے بارے میں کوئی اچھا لفظ ادا کرنا بھی کسر شان سمجھتے ہیں۔ ہر عالمی فورم، ادارے یا دارالحکومت میں دونوں ملکوں کے نمائندے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے دوسرے کو شرمندگی یا ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔

پاک فوج کے سربراہ خطے میں امن اور معاملات کو باہمی بات چیت سے حل کرنے کے بارے میں مسلسل بات کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے متعدد بار بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ 2019 میں کرتارپور راہداری کا قیام جنرل باجوہ کی اسی خواہش کا عملی اظہار تھا تاہم اس جرات مندانہ سفارتی پیش رفت کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری میں کمی نہیں آ سکی۔ حالانکہ بھارت نے اسی سال اگست میں مقبوضہ کشمیر کے آئینی حقوق ختم کرنے اور وہاں پر مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے نقطہ نظر سے ڈومیسائل قوانین میں افسوسناک تبدیلیاں کی تھیں۔اس کے باوجود پاکستان نے کرتار پور راہداری پر کام نہیں روکا تھا اور نومبر میں اس کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا تھا۔ اس راہداری کی وجہ سے نہ صرف بھارت کے سکھ یاتری گوردوارہ دربار صاحب کی زیارت کے لئے آسکتے ہیں بلکہ یہ راہداری دونوں ملکوں میں آباد ایسے لوگوں کے درمیان ملاقات و براہ راست رابطہ کا ذریعہ بھی بن چکی ہے جو دونوں ملکوں کی سخت گیر ویزا پالیسی کی وجہ سے برس ہا برس تک ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے۔باہمی تعلقات میں اس تعطل کی کوئی ایک وجہ نہیں ہو سکتی لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اگرچہ دونوں ممالک کے عوام میں باہمی خیر سگالی کا شدید جذبہ موجود ہے لیکن ان ملکوں کے سیاست دانوں نے کبھی اس خیر سگالی کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بحال کرنے اور تنازعات حل کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب یہ صورت ہو چکی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں باہمی دوستی کی بات کرنا شجر ممنوعہ بن چکا ہے۔

اگر کوئی حوصلہ مند سیاست دان تنازعات ختم کر کے مفاہمت پیدا کرنے کی بات کرے تو اسے شدید مخالفانہ پروپیگنڈے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دونوں طرف ایسے سیاسی عناصر موجود ہیں جو جنرل باجوہ کے خیالات کے مطابق امن کو ہی مسائل کا واحد حل سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ملکوں میں تنازعات ختم کرنے کے لئے امن کو ایک موقع دینا چاہیے۔ ستم ظریفی البتہ یہ ہے اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایسی باتیں کی جاتی ہیں لیکن اقتدار ملنے کے بعد کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کے لئے ہمسایہ ملک کے لئے خیرسگالی کا کوئی اظہار ممکن نہیں رہتا کیوں کہ ایسا کوئی اقدام سیاسی طور سے خودکشی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔

اس صورت حال کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت میں یکساں طور سے ہوشمند سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔ نعروں اور گمراہ کن پروپیگنڈا کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو شہرت اور مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ ایسے نعرہ باز لیڈر دیر پا امن اور باہمی کشیدگی کے ماحول میں تعطل کو توڑنے کا حوصلہ مندانہ قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کر سکتے۔ اس کے برعکس برصغیر کے ان دونوں ممالک میں مذہبی جذبات کو اکسا کر سیاسی قبولیت کا راستہ تلاش کرنے کے طرز عمل نے پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات طے کرنے کے لئے مفاہمانہ راستہ تلاش کرنے کے امکانات کو کم کر دیا ہے۔فی الوقت اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت بھی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ جو خبریں عام طور سے دستیاب ہوتی ہیں، ان کے مطابق اس وقت پس پردہ روابط یعنی ٹریک۔ 2 ڈپلومیسی کا راستہ بھی مسدود ہے۔ یعنی اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان موجودہ کشیدگی اور تفادت کو دور کرنے کے لئے کسی قسم کی کوئی ہلچل موجود نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بجا طور سے اس طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ موجودہ تعطل یا اسٹیٹس کو کو توڑنا خطے میں خوشحالی اور امن کے لئے بے حد ضروری ہے۔

جنرل باجوہ کی باتیں اس حد تک تو حوصلہ افزا ہیں کہ طاقت ور فوج کا سربراہ امن کی ضرورت اور عوام کے حق آسائش و خوشحالی کی بات کر رہا ہے۔ پاکستانی فوج کی طرف سے مفاہمت کی باتوں کو محض سیاسی اسسٹنٹ سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے قیام امن اور مسائل حل کرنے کا میکینزم تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ اسے پاکستان کی کمزوری نہ سمجھا جائے کیوں کہ مسلح افواج اپنے وطن کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔یوں ایک طرف بھارت کو امن کے لئے سفارت کاری اور مذاکرات کا راستہ تلاش کرنے کی دعوت دی گئی ہے تو دوسری طرف ملک کی سیاسی قیادت کو یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ اگر وہ بھارت کے ساتھ مفاہمت کے لئے کوئی قدم اٹھائیں گے تو فوج ان کے شانہ بشانہ ہوگی۔ یہ یقین دہانی خوشنما ہونے کے باوجود موجودہ سیاسی منظر نامہ میں قابل عمل نہیں ہے۔

پاکستان اس وقت شدید سیاسی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ دو صوبوں کی حکومتیں مرکز میں قائم حکومت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانا جائز سمجھتی ہیں۔ آج پنجاب کی ایک عدالت سے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے خلاف جاری ہونے والا وارنٹ گرفتاری اس تصادم کی محض مبہم سی تصویر دکھاتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی عمران خان کی قیادت میں احتجاج کر رہی ہے اور موجودہ حکومت کو ناجائز اور غیر ملکی سازش کی پیداوار قرار دیتی ہے۔اور ملک کا وزیر اعظم دو دن سے عمران خان کو ’فراڈیا‘ قرار دے کر اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی سیاسی لیڈر بھارت کے ساتھ مفاہمت کی بات کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ عمران خان اس تعطل کی تمام تر ذمہ داری فوج پر عائد کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر فوج اتحادی جماعتوں کی سرپرستی نہ کرتی تو ان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ دوسری طرف فوج کے اس اعلان پر پوری طرح یقین کی کمی بھی محسوس کی جاتی ہے جس کے مطابق فوج سیاست میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی۔ کچھ عناصر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ فوج کے بعض حلقوں میں تحریک انصاف کو بدستور پذیرائی حاصل ہے، اسی لئے عمران خان وہ تمام ریڈ لائنز عبور کرلیتے ہیں جو اس سے پہلے کسی سیاسی لیڈر کے لئے ممکن نہیں تھا۔

اس ماحول میں خطے میں امن اور بھارت کے ساتھ مواصلت مفاہمت کا مقصد ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا ۔ فوج اپنی پوزیشن واضح کر کے اس بے یقینی کو ختم ضرور کرنا چاہتی ہے لیکن کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر ملک کے اہم سفارتی، قومی سلامتی اور معیشت کے بارے میں آرمی چیف کا بیان واضح کرتا ہے کہ ملکی معاملات کے اہم فیصلے اب بھی پارلیمنٹ میں کرنا ممکن نہیں ہے۔ ورنہ جس سیاسی خواہش کا اظہار جنرل با جوہ کاکول اکیڈمی کے خطاب میں کر رہے ہیں، ان پر ملک کا وزیر اعظم قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے حکمت عملی کا اعلان کرتا یا صدر مملکت پارلیمنٹ کے اجلاس میں حکومت کی اس خواہش کو پیش کرتے کہ اب اس خطے میں جنگ کی بجائے امن قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ برصغیر کے عوام کو بھی وہ تمام سہولیات بہم ہو سکیں جو دنیا کے باقی لوگوں کو حاصل ہیں۔

آرمی چیف کی تقریر میں یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں : ’امن کی اسی خواہش میں ہم نے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم ان سیاسی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے ممالک آگے نہیں بڑھ سکے اور باعزت و پرامن طریقے سے باہمی علاقائی معاملات طے نہیں کرسکے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کو بھی باقی ماندہ دنیا کی طرح بہتر معیار اور خوشحال زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم یہ مقصد مسلسل اقتصادی ترقی اور سب سے بڑھ کر پائیدار امن سے ہی حاصل ہو سکتا ہے‘ ۔کسی ایسے ملک کی فوج کا سربراہ کیوں کر ایسا پالیسی بیان دے سکتا ہے جہاں کا آئین اسے ملک کی سیاسی حکومت کا زیر فرمان کرتا ہو۔ سیاسی کوششوں کا بیان ان معنوں میں بھی مبہم ہے کہ پاکستان و بھارت کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور تمام سفارتی مواصلت معطل ہے۔ ایسے میں بہتری کی یک طرفہ کوشش کیوں کر ممکن ہے۔ ان حالات میں خطے میں قیام امن کی خواہش کی تکمیل یا تو محض خوشنما بیانات تک محدود رہے گی یا پاک فوج کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے کہ ملک میں آئینی حکمرانی کو بہر صورت یقینی بنایا جائے۔ جمہوری اداروں کے احترام کا سبق محض نئے کیڈٹس کو ہی یاد نہ کروایا جائے بلکہ ملکی سیاسی منظر میں نقشہ گری کرنے والے عناصر پر بھی واضح ہو کہ سیاسی لیڈر قومی سلامتی کے تحفظ کی حکمت عملی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مضبوط جمہوری حکومت، با اختیار پارلیمنٹ اور آئین کو ماننے والے ادارے ہی پاکستان کو ایسے مضبوط ملک میں تبدیل کر سکتے ہیں جو قیام امن کے لئے فیصلہ کن اقدام کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں