دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دڑاورین تہزیب کے آثار و نسلیات !
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
ہمارے ایک اہل علم دوست نے اپنی وال پر انڈس سویلائزیشن میں آباد قدیم باشندوں اور نسلوں کے بارے میں تحریر فرمایا کہ یہ سب سیاہ رنگت اور موٹے ہونٹوں والے , پست قد اور الجھے خشک بالوں والی شکل کے حامل باشندے تھے,, جبکہ درحقیقت ایسا نہیں تھا , اس بارے میں راقم کی تحقیق اور مطالعہ کی بنیاد پر اپنا نقطہ نظر بھی پیش کرنا چاہوں گا لیکن ساتھ ہی یہ تحریر کرنا بھی ضروری ہے کہ اس موضوع پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے لیکن دستیاب شواہد اور موجودہ تاریخی نشانات سے کچھ نہ کچھ حقیقت کے قریب نتیجہ اخز کیا جا سکتا ہے ۔
ہم وانی بھی قبل از آرینز وقت کا قبیلہ ہیں ,اور آرینز کے انڈس ویلی پر قبضے کے بعد اس قبیلے کا کچھ حصہ انڈس ویلی کے کچھ دیگر قبائل کے ساتھ ہجرت کر کے کشمیر جا کر آباد ہو گیا تھا , مشہور محقق اور ماہر آثارِ قدیمہ و قدیم تاریخ ڈاکٹر احمد حسن دانی صاحب میرے والد خواجہ عبدالصّمد وانی کے قریبی دوست تھے اور گاہے بگاہے تشریف لاتے رہتے تھے, ان کی طویل نشستیں ہوا کرتی تھیں, یہ بات درست ہے کہ وہ بھی وانی کاسٹ سے تھے اور فرماتے تھے کہ تقسیم ہند کے دوران یا تعلیمی دور میں کسی کلرک کی غلطی کی وجہ سے "وانی" , کو" دانی" لکھ دیا گیا جو بعد ازاں درست نہ کروایا جا سکا اور اسی طرح چلنے لگا , وہ یہ بھی فرماتے تھے, کہ وانڑیں سنسکرت زبان میں " جاننے والے اور علم رکھنے والے کو کہا جاتا تھا, جیسے بھارت کے قومی ریڈیو کا نام آج بھی " آکاش وانی " ہے , جس کا ترجمہ ہے آکاش یعنی آسمان کی خبر یا علم رکھنے والا , اگر غور کیا جاے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب آرینز نے انڈس سویلائزیشن پر قبضہ کر لیا, تو چونکہ یہ جنگی لوگ تھے ان کو کاروبار نہیں آتا تھا, اور کاروبار باقائدہ ایک علم ہے تو انہوں نے باقی باشندوں کو تو قتل کیا یا غلام بنا کر شودر اور داسیو کا درجہ دے دیا لیکن چونکہ وہ منڈی یا تجارت کا علم نہیں جانتے تھے, اس لئیے پہلے سے کاروبار کے پیشہ سے وابستہ وانڑیوں کو انہوں نے " ویش " کا درجہ دے کر اپنے سماج میں شامل کر لیا , یہ جو ڈاکٹر احمد حسن دانی صاحب , سنسکرت کے تناظر میں وانی کا مفہوم " جاننے والا یا علم رکھنے والا , کرتے ہیں, یہ دراصل کاروبار , منڈی اور تجارت کے علم کی طرف اشارہ تھا ۔ میرا خیال ہے بات واضع ہو گئی ہے ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کشمیری زبان میں دکان کو " وان " ہی کہا جاتا ہے جو وانی سے ہی نکلا ہوا لفظ ہے جو اپنے معانی اور تاریخ بھی بیان کر رہا ہے ۔
وانی کو سندھی لہجے میں بیان کریں تو یہ " وانڑیں " بن جاتا ہے ۔ اپنی نسلی اور درست قومی پہچان کی تلاش اور تحقیق ہر باشعور انسان کا فرض ہوتا ہے اور ہمیں اپنے اصلی فرزندِ زمین ہونے پر فخر ہونا چاہئیے , ایک مشہور کتاب جو نسلیاتِ پنجاب کے موضوع پر لکھی گئی ہے کسی انگریز نے جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا, بہت تحقیق کے بعد لکھی ہے اس میں وانی زات کا زکر ایک نجیب اور شریف قوم کے طور پر کیا گیا ہے ۔ وادی کشمیر جہاں ایک شدید زلزلے کےنتیجے میں عظیم جھیل " ستی سر " کا بند آج کے بارہ مولہ اور اوڑی کے درمیان ٹوٹنے کی وجہ سے اس عظیم جھیل کا پانی آج کے دریاے جہلم کے بہاو کے رخ پر نکل گیا اور ستی سر کے مکمل خالی ہو جانے پر نیچے سے آج کی وادی کشمیر کی سرزمین نمودار ہو گئی جہاں مزید گہری جگہوں پر کچھ چھوٹی جھلیں رہ گئیں , یہ وادی کافی عرصہ خالی پڑی رہی, حتیٰ کہ یہاں انڈس سویلائزیشن سے ہجرت کرنے والے مختلف قبائل کے لوگ آ کر آباد ہو گئے ۔ آج بھی کشمیر کی آبادی کی اکثریت کی نسلی جڑیں انڈس سویلائزیشن سے جڑی ہوئی ہیں , اس قدیم تہزیبی مماثلت اور موافقت کے تہزیبی اور ثقافتی آثار اور رجہانات آج بھی واضع طور پر پہچانے جا سکتے ہیں , اس کے ثبوت کے طور پر یہ بات ہی کافی ہے کہ وادی کشمیر کے باشندوں کے سماجی , ثقافتی , تہزیبی , اور کاروباری تعلقات زیادہ تر فطری طور پر اسی سمت یعنی پنجاب اور سابقہ صوبہ سرحد کی طرف ہی رہے ہیں اور راولپنڈی کا شہر تو ان سرگرمیوں کا ایسا مرکز تھا, اور آج بھی ہے جہاں قدیم شہر پر کشمیر کے غالب تہزیبی اور ثقافتی و کاروباری رشتے کے آثار آج بھی واضع طور پر دیکھے اور پہچانے جا سکتے ہیں , پنڈی کا قدیم راجہ بازار مہاراجہ کشمیر کی قدیم ملکیت تھا اسی وجہ سے راجہ بازار کہلاتا تھا, اسی طرح صدر کی طرف پونچھ ہاوس مہاراجہ کشمیر کے ہی رشتہ دار راجہ پونچھ کا سرمائی محل تھا , غرض اس قدیم تعلق اور رشتہ کے نقوش آج بھی واضع طور پر قابل شناخت ہیں ۔
آج سے تقریباً پانچ سے چھ ہزار سال قبل ۔ دراوڑین سویلائزیشن میں ہم وانڑیں تجارت اور کاروبار کیا کرتے تھے, تھر میں آج بھی وانیا قبیلہ موجود ہے, جو کسانوں کی فصلیں خریدتے اور تجارت اور بیاج کا کام کرتے ہیں ہندووں کا بنیا بھی دراصل وانڑیں ہی ہے, سندھی زبان میں آج تک کاروبار کو " ونڑیج " کہا جاتا ہے جس کی اصل یہی واننڑیں کا لفظ ہی ہے , وانڑیں مطلب وانی , پنجاب میں وائیں , کے پی کے میں پنی , یہ سب آج تک زیادہ تر کاروبار کے پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں ان کا رنگ سیاہ نہیں ہوتا بلکہ درمیانی کھلتی ہوئی رنگت کے لوگ ہوتے ہیں ۔ پروفیسر صاحب نے مشرق کی طرف ہجرت کر جانے والے آدی واسی قبائل کو دیکھ کر یہ راے قائم کی کہ دراوڑین سب سیاہی مائل رنگت کے حامل ہوا کرتے تھے ,جبکہ درحقیقت ایسا نہیں وہ قبائل انڈس سویلائزیشن میں بھی جنگل واسی ہی تھے , آسٹریلیا کے قدیم باشندے " بش مین " بھی دراصل دراوڑ نسل سے ہی ہیں , ان کے اور آدی واسیوں کی شکلیں , نقوش اور رنگ و روپ میں بہت زیادہ مماثلت ہے, قدیم ترین دور میں آسٹریلیا ہند سے ہی الگ ہو کر علہدہ براعظم بنا جو پہلے عظیم براعظم "پین گے" کا ایک حصہ تھا, جو باشندوں سمیت کٹ کر دور نکل گیا , آج تک نقشے پر آسٹریلیا ہند کے ساتھ ایک جگ سا پزل کی طرح جڑ جاتا ہے ۔
بعد ازاں انڈس سویلائزیشن کے شہری لوگ موئنجو دڑو , ہڑپہ , ڈھولا ویرا جیسے نوے شہروں پر مشتمل تہزیب کے باشندے تھے , جو اس شاندار تہزیب کے شہروں قصبوں اور دیہات میں آباد تھے, ان نوے شہروں میں سے صرف یہی تین شہر جن کا اوپر زکر کیا گیا ہے, ہی اب تک دریافت ہوے ہیں موئنجو دڑو آج کے سندھ میں , ہڑپہ آج کے پنجاب میں اور ڈھولا ویرا آج کے بھارت کے متصل علاقے راجستان میں دریافت ہوا ہے ۔ ان میں سے اکثر شہر دریاوں کے کناروں پر آباد تھے, جن میں سے کئی ان دریاوں کا رخ بدلنے کی وجہ سے دریا برد ہو چکے ہیں آج بھی ڈیرہ غازی خان کی طرف جامپور کے نزدیک کے قریبی علاقوں میں ایک وسیع علاقے میں اس تہزیب کے قدیم ترین آثار بکھرے پڑے ہیں جہاں اب تک کوئی باقائدہ کھدائی نہیں کی گئی ہے ان ہی اور ملحقہ علاقوں میں قدیم دراوڑین تہزیب کے زمانے کے قدیم قبائل کول , بھیل وغیرہ آج بھی پاے جاتے ہیں اور اپنی جلد , بالوں اور آنکھوں کی مخصوص رنگت کی وجہ سے آج بھی واضع طور پر پہچانے جاتے ہیں میرے ایک صحافی فیس بک فرینڈ نے جو اسی علاقے میں مقیم ہیں ایک بار اپنی وال پر ایک چھوٹی بچی کی تصویر لگائی ,جس پر اس بچی کی آنکھوں کی مخصوص رنگت دیکھ کر میں نے تبصرہ کیا کہ یہ بچی قدیم دراوڑین نسل سے تعلق رکھتی ہے تو میرے دوست نے تصدیق کی اور بتایا کہ یہ بچی بھیل قبیلے سے تعلق رکھتی ہے وہ حیران تھے کہ میں نے کیسے پہچان لیا, تو ان کو بتایا کہ اس بچی کی آنکھوں کے مخصوص رنگ کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا تھا, جو درست ثابت ہوا تھا ۔ یہ جو پکھی واس , نٹ , چنگڑ , مصّلی وغیرہ قبائل کے لوگ آج شہروں سے باہر مضافات میں جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں اور تقریباً خانہ بدوش زندگی بسر کرتے ہیں یہ اس سرزمین کے قدیم باشندوں میں سے ہیں جن کو فاتح آرینز نے غلبے کے بعد اور ان کو مفتوح کر لینے کے بعد شودر , اچھوت اور داسیو یعنی ملازم یا غلام کے القاب اور مقام کو ان کے لئیےمقرر کیا , ان کو شہروں سے باہر نکال دیا گیا , ان پر پکا مکان بنا کر رہنے کی ممانعت کر دی ان کی زمینیں بزور چھین لی گئیں اور سماج کے غلیظ اور ادنیٰ ترین کام ان سے کرواے جانے لگے , ان کاموں کے لئیے ان کو شہر آنا پڑتا تو ان پر پابندی لگائی گئی کہ یہ اپنی پہچان کے لئیے ساتھ کتّا رکھا کریں , اس زمانے کی آرینز کی علمی اور مزہبی زبان سنسکرت تھی, اس خدشے کے پیش نظر کہ کوئی شودر یا داس یہ زبان سیکھ کر علم پر دسترس حاصل نہ کر لے تو جس کے کان میں سنسکرت کے الفاظ پڑ جاتے تو اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ٹپکایا جاتا, المیہ یہ ہے کہ آج پانچ ہزار سال گزر جانے کے بعد بھی دھرتی کے ان قدیم بیٹوں کی حالت لگ بھگ ویسی ہی ہے جیسی ان کے مفتوح ہو جانے کے بعد فاتحین نے ان کی بنا دی تھی یہ آج بھی شہروں سے باہر جھونپڑیوں میں رہتے ہیں ان پر تعلیم اور اس کے نتیجے میں سرکاری یا دیگر نوکریوں کے دروازے آج بھی بند ہیں , ان کے ماحول اور حالات کی وجہ سے ان کے لئیے تعلیم حاصل کرنا آج بھی تقریباً ناممکن ہے , آج بھی ان سے ماضی بعید کی طرح ادنیٰ اور گھٹیا کام ہی کرواے جاتے ہیں, ان کے لئیے صرف خاکروب کی نوکری ہے اور آج آزادی اور شعور کے اس زمانے میں بھی ان کی ترقی اور ان کو انسانی مقام تک لانے کے لئیے نہ کسی کے پاس کوئی احساس ہے نہ کوئی منصوبہ ۔
دڑاوڑین تہزیب میں سردار کو راجن کہا جاتا تھا , آج کا راجن پور بھی اسی قدیم تہزیب سے تعلق رکھتا ہے , اس تہزیب میں مختلف قبائل اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے شہری اور دیہاتی , جنگل واسی اور بیلے واسی جو دریاوں کے بیلوں میں رہا کرتے اور بھینسیں اور گائیں پالا کرتے , رہا کرتے تھے اسی طرح کچھ شمال کی طرف سے آنے والے قبائل پہاڑی علاقوں اور زیریں پہاڑی علاقوں میں آباد تھے جن میں شمال سے آے شین اور یشکن باشندوں نے دردستان کی عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی جس کا دارلحکومت کیلاش یعنی آج کا چلاس تھا , اس سے اوپر ان ہی اور دیگر چند زیلی قبائل پر مشتمل بلاورستان کی ریاست جو دشوار پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے مختلف چھوٹی چھوٹی آزاد و خود مختار ریاستوں کی شکل میں موجود تھی اور اس تمام علاقے کو پہچان کے طور پر بالاورستان کہا جاتا تھا یہاں لداخ , تبت اور چینی ترکستان کے باشندوں پر مشتمل خاندان بھی آباد تھے , اسی طرح قدیم ایرانی اثرات بھی پوٹوہار اور ملحقہ کم بلندی کے پہاڑی علاقوں کے باشندوں میں آج بھی واضع ہیں , سوات اور مالاکنڈ سے اٹک تک آباد آج کے یوسف زئی کہلانے والے قبائل دراصل قدیم ایرانی "ایسپ زئی" قبیلہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ تبدیل ہو کر یوسف زئی بن گیا , ایسپ فارسی زبان میں گھوڑے کو کہا جاتا ہے اور یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ قدیم باشندوں میں قبیلوں کو مختلف جانوروں سے منسوب بھی کیا جاتا تھا جن پر ان قبائل کا زیادہ انحصار ہوا کرتا تھا بھینس , داند , نام کے قبائل اور گوتیں تو آج تک ان علاقوں میں پاے جاتے ہیں , یہ رواج دنیا کی دوسری قدیم اقوام میں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے سائیبیریا کے ریچھ قبائل , بارہ سنگھا قبیلہ , افریقہ کا شیر قبیلہ , ہرن قبیلہ , ترک بھیڑیا قبائل , آج تو ترک قوم کو یورپ اور روس میں وولف کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے , اتاترک فخریہ طور پر " گرے وولف کہلاتا تھا اور اس لقب کو پسند بھی کرتا تھا ۔
یہ سمجھنا کہ دڑاوڑین تہزیب صرف موٹے ہونٹوں , الجھے گھنگریالے بالوں اور گہری رنگت والے باشندوں پر ہی مشتمل تھی, درست نہیں ہے , یہ جنگل واسیوں یا آج کے آدی واسیوں کا حلیہ ہے ۔ باقی مہزب اور اس وقت کے لحاظ سے شہری تہزیب سے تعلق رکھنے والے اہل حرفہ , , ہنر مند , کسان اور دکاندار و تاجر بھی اس معاشرے میں اپنے اپنے مقامات پر موجود تھے, جن کا رنگ و روپ جنگل واسی لوگوں سے مختلف تھا ۔ ان کو موئنجو دڑو اور ہڑپّہ میں دو بڑے زمروں میں تقسیم کیا گیا تھا ایک "اسُور " جو مزہبی پروہت , تعلیم یافتہ لوگ یعنی شاید اس وقت کے انتظامی افسران اور حکمران و فوجی ہوا کرتے اور دوسرا زمرہ " وَرتر " کہلاتا جس میں عوام , کسان , تاجر اور اہل ہرفہ و دیگر پیشوں سے وابستہ لوگ شامل ہوتے تھے ۔ دنیا میں سب سے قدیم سیوریج سسٹم اور منصوبہ بندی سے قائم شدہ شہر ہڑپہ کے کھنڈرات اس تہزیب کی عظمت کے تباہ شدہ آثار کے طور پر آج بھی موجود ہے , اسی شہر میں دنیا کا سب سے قدیم سیوریج سسٹم جو پوری طرح ڈھکا ہوا ہوتا تھا, آج بھی دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔ بدقسمتی سے تہزیبی اور علمی شعور کے فقدان کی وجہ اور بعد ازاں مزہبی تعصب کی وجہ سے بھی اس موضوع پر پاکستان میں زیادہ تحقیق نہ کی جا سکی , حالانکہ ہماری آج کی موجودہ تہزیب اور ثقافت کی بنیاد اور جڑیں اس علاقے میں پانچ سےچھ ہزار سال قبل موجود مہزب تہزیب سے نسلی , لسانی , اور ثقافتی و تہزیبی طور پر کسی نہ کسی شکل میں آج بھی منسلک ہیں ۔
واپس کریں