دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
برمنگھم کی ایک طوائف کی کہانی: ماں کے بعد بیٹی کو بھی آزاد کشمیر کے ہی ایک شخص نے دھوکہ دیا
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
برطانیہ میں سردیوں میں چار بجے ہی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ چار پانچ سال پہلے کی بات ہے، دسمبر کی ایک سرد شام میں برمنگھم کے سمال ہیتھ ایریا میں اپنے ایک دوست کے ہاں دعوت پر مدعو تھا۔ آٹھ بجے کھانا کھا کر دوست کے گھر چھوڑ آنے کے اصرار کے باوجود میں نے بس پر واپس جانا پسند کیا۔ بس سٹاپ اس کے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر تھا۔ اگلی گلی کی نکڑ پر مجھے لمبے اور کوٹ میں ملبوس ایک بنی سنوری خاتون کھڑی دکھائی دی۔ گلی میں لگے بلب کی روشنی میں دیکھا وہ بھورے بالوں والی ایک خوبصورت خاتون تھی۔میں جب اس کے قریب پہنچا تو وہ میری طرف بڑھی اور دھیمی آواز میں کہا بزنس کرو گے ۔ میں نے اس سے پوچھا۔ کون سا بزنس ۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کا کش لگا کر مجھے پوچھا۔ شہر میں نئے ہو؟ ۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ کس بزنس کی بات کرر ہی ہے تب مجھے پتہ چلا کہ وہ ایک پیشہ ور خاتون ہے جو اپنا گاہک ڈھونڈنے نکلی ہے۔ اس نے کہا جلدی بتاو، اگر میرے ساتھ چلو گے تو چالیس پاونڈ اور اگر میں تمہارے ساتھ چلوں گی تو پچاس پاونڈ ہوں گے اور ٹیکسی کے پیسے بھی تم خود دو گے۔

اس دم میں نے سوچا کہ میری کتاب کے لئے ایک اور نئی کہانی مل جائے تو چالیس پاونڈ میں یہ سودہ مہنگا نہیں ہے۔ میں نے اس کے ساتھ جانے کی حامی بھری تو اس نے بتایا کہ دو گلیاں چھوڑ کر میں رہتی ہوں۔ چلو، لیکن وہاں کوئی شور شرابا نہیں کرنا۔ میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے مجھ سے پوچھا تم انڈین ہو؟ جب میں نے پاکستان کا بتایا تو وہ فورا بولی السلام علیکم۔ اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں اردو بولنا آتی ہے تو اس نے جواب دیا کہ تھوڑی تھوڑی۔میں نے اس سے پوچھا کہ گھر میں تم اکیلی ہو تو اس نے بتایا کہ ایک ماں ہے۔ لیکن تم پرواہ نہ کرو وہ بیمار ہے اور وہ نیچے اپنے کمرے میں ہو گی۔ گھر پہنچ کر سب سے پہلے اس نے مجھ سے رقم کا مطالبہ کیا جو میں نے اس کے حوالہ کر دی۔ اس نے مجھے فرنٹ روم میں بٹھایا اور خود اوپر چلی گئی۔ واپس آ کر اس نے مجھے کہا کہ چلو بیڈروم میں چلتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ یہیں فرنٹ روم میں بیٹھتے ہیں۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں میں الجھن کے کچھ آثار نظر آئے تو میں نے اس سے کہا۔دیکھو تمہارے وقت کی قیمت میں نے تمہیں ادا کر دی ہے اب اس کا تصرف میری مرضی۔ اس کہا تم پاکستانی بڑے عجیب بندے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔ میں نے اس کو پوچھا کہ تمہیں اردو کیسے آتی ہے۔ اس نے مجھے جواب دیا کہ میں پاکستان میں چار ماہ رہ کر آئی ہوں۔ میں نے اسے اپنا تعارف کروایا کہ میں پاکستان سے برطانیہ کی سیر کرنے آیا ہوں۔ چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتا ہوں۔ آج کل میں پیشہ ور عورتوں پر کچھ معلومات اکٹھی کر رہا ہوں۔

ان پر کتاب لکھنے کے لئے، اسی لئے تمہارے ساتھ آ گیا ہوں۔ ورنہ میں ایسا بندہ نہیں ہوں۔ وہ فورا غصے سے بولی۔ سب جھوٹ، پاکستانی مرد بہت جھوٹے اور مکار ہوتے ہیں۔ پھر وہ اٹھی، اوپر گئی اور نیچے آ کر مجھے میرے پیسے لوٹاتے ہوئے بولی تم جاو ایسے ہی میرا وقت خراب کیا۔ میں نے پاونڈ سامنے پڑی میز پر رکھے اور اس سے کہا کہ یقین مانو میں ویسا آدمی نہیں ہوں جیسا تم نے سوچا ہے۔ میری بات سن کروہ بیٹھ گئی۔ مجھے کہا کہ مجھے دو پاکستانیوں کا تجربہ ہوا ہے اور وہ دونوں ہی جھوٹے اور فریبی تھے، دھوکے باز۔ میں نے اسے جواب دیا کہ دنیا میں سب لوگ ایک جیسے نہیں ہیں، اسی طرح سارے پاکستانی بھی خراب نہیں ہیں۔ اس پر وہ چپ کر کے بیٹھ گئی۔میں نے سوال کیا۔ تم اس دھندے میں کیسے آ گئیں اور کیا یہ تمہیں پسند ہے۔ نہیں مجھے پسند تو نہیں ہے، لیکن کیا کروں، آسان ہے، سارا دن گھر میں اپنی ماں کی دیکھ بھال میں آسانی ہوتی ہے اور پیسے بھی اچھے مل جاتے ہیں۔ میں زیادہ لالچ نہیں کرتی، دن میں ایک یا دو بندوں سے زیادہ اور کسی سے ملاقات نہیں کرتی۔ بس وقت اچھا گزر رہا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ کبھی سوچا ہے تمہارا مستقبل کیا ہو گا۔ میں نے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ مستقبل کی اب کسے پرواہ ہے۔ زندگی برباد ہو کر رہ گئی ہے۔ میری جیسی بہت سی خواتین اس معاشرے میں اکیلی رہتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر حوصلہ ملتا ہے کہ وہ بھی تو گزارہ کر ہی رہی ہیں۔

اچھا تم تھوڑی دیر پہلے پاکستانیوں مردوں کو برا کہہ رہی تھیں وہ کیا بات تھی۔ چھوڑو کیا کرو گے جان کر۔ میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے اس نے کہا۔ میں نے تمہیں پہلے بتایا ہے کہ میں کہانیاں لکھتا ہوں، مجھے نئی کہانیاں جاننے میں دلچسپی رہتی ہے۔ اچھا چھوڑو وہ کہانی پھر سہی۔ آپ جس کام کے لئے آئے ہو وہ کرو اور جاو۔ اس نے اکتا کر کہا۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ میں صرف تم سے باتیں کرنے یہاں آیا ہوں۔ پھر میں نے کہا کہ اچھا یہ بتاو کہ تم نے ہماری زبان کے الفاظ کہاں سے سیکھے؟ میں تین چار ماہ پاکستان رہ کر آئی ہوں۔ اس نے کہا تو میں نے پوچھا۔ کب گئی تھی اور کیا کرنے گئی تھی۔ جواب آیا، کافی سالوں کی بات ہے۔ میں اپنے باپ کو ڈھونڈنے گئی تھی۔ مجھے یہ سن کر ایک شاک سا لگا۔ کیا تمہارا باپ پاکستانی ہے؟ مجھ اب اس سے ہمدردی ہو گئی تھی اور میں اس کے حالات جاننے کے لیے بیتاب ہو گیا تھا۔ اپنے حالات میں میری دلچسپی دیکھ کر وہ بھی کچھ کھو سی گئی تھی۔ میں نے پھر اس سے پوچھا کہ پھر کیا ہوا۔ وہ تھوڑی دیر چپ ہو کر بیٹھ گئی۔ پھر وہ اٹھی اور مجھ سے پوچھا کافی پیو گے۔ میں کافی بنا کر لاتی ہوں پھر تمہیں بتاتی ہوں۔ کافی کا کپ میز پر رکھ کروہ کچھ دیر کھو سی گئی پھر وہ بولی اور بولتی ہی گئی۔میرے باپ کا تعلق پاکستان سے ہے کشمیر کا کوئی چکسواری کا علاقہ ہے۔ میری ماں ایک ترکی نژاد برطانوی خاتون ہیں۔ اپنے بہتر مستقبل اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ستر کی دہائی کے اوائل میں برطانیہ آئیں۔ یہاں انہوں نے نوٹنگھم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ میرے والد کا خاندان پاکستان سے ہجرت کر کے برطانیہ میں آباد ہوا تھا۔ میرے والد نے بھی ان ہی دنوں میں نوٹنگھم یونیورسٹی میں میری والدہ کی جماعت میں داخلہ لیا تھا۔

میری ماں جوانی میں بہت خوبصورت اور سلجھی ہوئی سلیقہ شعار خاتون تھیں۔ ان کی گوری رنگت اور بھورے بالوں کی وجہ سے زیادہ تر لوگ انہیں انگریز ہی سمجھتے تھے۔ جماعت میں ایک ساتھ پڑھتے، اٹھتے بیٹھتے دونوں کی آپس میں دوستی ہو گئی۔ یونیورسٹی میں اور باہر ان کا وقت اکٹھے گزرنے لگا۔ میری والدہ اس تعلق میں بہت سنجیدہ تھیں اور اس کو باقاعدہ رشتے میں تبدیل کرنے کی خواہش مند تھیں جب کہ والد نے شاید وقت گزاری کے لئے یا ماں کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر ان سے تعلق بنا یا تھا۔ دو سال اس تعلق میں رہنے پر میری والدہ کے بہت زیادہ اصرار پر دونوں کی شادی ہو گئی۔ میری ماں یونیورسٹی کی کچھ لڑکیوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتی تھیں۔ شادی کے بعد وہ علیحدہ کرائے کے فلیٹ میں منتقل ہو گئیں۔والد ہفتے میں دو تین دن ان کے پاس رہتے۔ انہوں نے اپنے گھر والوں کو اپنی شادی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ والدہ بھی شاید برطانیہ میں آباد ہونے کے لیے کسی سہارے کی تلاش میں تھیں۔ شادی کے دو سال بعد میں پیدا ہوئی، والدہ اس وقت تک تعلیم مکمل کر کے نوٹنگھم میں ہی ایک سکول میں پڑھانے لگ گئیں تھیں۔ جب کہ والد برمنگھم میں اپنے خاندان کے بزنس میں ان کا ہاتھ بٹانے لگ گئے۔ ان کے خاندان کا برمنگھم میں پاکستانی آبادی کے علاقہ سٹافورڈ روڈ پر بہت بڑا گروسری سٹور تھا۔جب کہ ان کا تعلق پاکستانی کشمیر کے گاوں چکسواری سے تھا۔ والدہ نے کئی بار میرے والد کو اپنے ماں باپ سے ملانے کا کہا لیکن وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیتے۔ اپنے خاندان کے بارے میں ماں کو بتاتے تھے کہ وہ بہت سخت ہیں۔ میری تمہارے ساتھ شادی کو قبول نہیں کریں گے، شاید تمہیں کوئی گزند نہ پہنچا دیں میں مناسب موقع دیکھ کر ان سے بات کروں گا۔ وہ دس پندرہ دن بعد ایک دو دن ہمارے پاس رہنے کے لئے آ جاتے تھے۔

جب میں پانچ سال کی ہوئی تو والد کافی عرصہ ہمارے پاس نہیں آئے۔ جس پر والدہ کو بہت تشویش ہوئی۔ وہ ان کی تلاش میں برمنگھم میں ان کے خاندانی سٹور پر گئیں تو وہاں سے پتہ چلا کہ وہ تو پاکستان چلا گیا ہے اور اس کی وہاں دو ہفتے بعد شادی ہے۔ اس پر والدہ نے نے ان کے بھائی کو بتایا کہ میں ان کی بیوی ہوں اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ انہوں نے والدہ کی کوئی بات نہیں سنی اور کہا کہ ہم نہیں جانتے تم کون ہو، نہ ہی میرے بھائی نے تمہارے ساتھ شادی کا کسی کو بتایا ہے۔ جب واپس آئے گا تو پوچھیں گے یہ کہہ کر والدہ کو وہاں سے بھگا دیا۔ والدہ بہت پریشان ہوئیں، اس کے بعد وہ پھر دو تین دفعہ برمنگھم ان کے خاندان کے سٹور پر گئیں لیکن والد سے ملاقات ہوئی نہ ہی وہ کہیں نظر آئے۔ ان کے بھائی نے ایک دفعہ بتایا کہ وہ مستقل پاکستان چلا گیا ہے اب واپس نہیں آئے گا۔ اتنی تلاش کے بعد بھی والد کہیں نہیں ملے تو والدہ رو دھو کر چپ کر گئیں۔ اب وہ اپنے ملک واپس بھی نہیں جانا چاہتی تھیں۔ اس امید پر کہ شاید کہیں کبھی میرے والد نظر آ جائیں والدہ برمنگھم میں منتقل ہو گئیں۔ یہ ساری باتیں مجھے اپنی والدہ سے بتائیں۔ تب سے ہم دونوں ماں بیٹی اس مکان میں رہ رہی ہیں۔

ماں نے میری بڑے اچھے طریقے سے پرورش کی۔ میری گریجویشن کے بعد میری ماں مجھے اعلی تعلیم دلوانے کی خواہاں تھی لیکن میرا دل نہیں چاہا۔ گریجویشن کے بعد مجھے برمنگھم ائرپورٹ پر ملازمت مل گئی۔ میں والد کے متعلق اکثر ماں سے پوچھتی تو وہ بتاتیں کہ تمہارا باپ ہمیں چھوڑ کر پاکستان چلا گیا ہے۔ میں ائرپورٹ پر کام کرنے کے دوران بہت سے پاکستانیوں سے ملی کہ شاید مجھے کبھی باپ کا پتہ چل سکے۔ ماں کو ڈپریشن ہوا تو ان کی بیماری کی وجہ سے میں ائرپورٹ کی ملازمت چھوڑ کر ماں کو سنبھالنے میں لگ گئی۔سال کے بعد ان کی طبیعت ذرا سنبھلی تو میں نے الم راک میں واقع پاکستانیوں کی ایک ٹریول ایجنسی میں کام کر نا شروع کر دیا۔ ہم دونوں ماں بیٹیاں اکیلی رہتی تھیں۔ ماں بہت کم گو ہو گئی تھی اور اکثر بیمار رہنے لگی تھیں۔ میں اپنے والد کو دیکھنا چاہتی تھی ان سے مل کر ان سے اپنی ماں کو اس طرح چھوڑ کر چلے جانے کی وجہ جاننا چاہتی تھی۔ ٹریول ایجنسی میں میرے ساتھ ایک پاکستانی لڑکا نوید کام کرتا تھا۔ اکثر مجھ سے گپ شپ کرتا رہتا تھا۔

ایک دن یوں ہی میں نے پاکستان جانے کی بات کی تو اس نے بتایا کہ میں تین چار ماہ تک پاکستان جا رہا ہوں۔ میں نے جب اسے اپنے باپ کے متعلق بتایا تو اس نے کہا اس کا قصبہ میرے والد کے گاوں کے پاس ہی ہے۔ پھر اس نے میرے پاکستان کے ویزے کا بندوبست کیا۔ میں نے والدہ کو یورپ میں جانے کا بہانہ کیا اور نوید کے ساتھ پاکستان چلی گئی۔ایک ہفتہ نوید نے مجھے اسلام آباد میں ایک ہوٹل میں رکھا۔ پھر وہ مجھے آزاد کشمیر میں ڈڈیال کے ایریا میں واقع اپنے گاوں پوٹھہ میں لے گیا جو اسلام آباد سے دو گھنٹے کی مسافت پر دور تھا۔یہاں ہم اس کے چچا کے گھر ٹھہرے۔ ان کے چچا کا خاندان بہت اچھا تھا، سیدھے سادھے دیہاتی لوگ تھے۔ اس کی چچی نے میرا بہت خیال رکھا۔ میری کہانی جب نوید کے چچا کو پتہ چلی تو وہ بھی اگلے دن ہمارے ساتھ میرے باپ کے گاوں جانے کو تیار ہو گئے۔ چک سواری پہنچ کر انہوں نے اپنے کسی واقف کار سے والد کا پتہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا ساتھ ہی چھوٹا سا گاوں ہے۔ ہم گاوں پہنچے۔ میرے والد کا آبائی گھر بہت بڑا تھا لیکن بند تھا۔نوید کے چچا نے گاوں کے ایک فرد سے بات کی تو اس نے بتایا کہ میرا والد تو پچھلے دس سال سے پاکستان نہیں آیا۔ میں بہت پریشان ہوئی کہ میرا پاکستان آنا یوں ہی بیکار گیا۔ ہم واپس پوٹھہ آ گئے۔ اب میں نے نوید کو کہا کہ مجھے واپسی کی سیٹ بک کروا دو لیکن اس نے کہا کہ کچھ دن رہو ہم شمالی علاقہ جات کی سیر کو جاتے ہیں۔ اس کے گھر رہ کر میں نے وہاں کی زبان کے کچھ الفاظ سیکھے۔ دو دن بعد وہ مجھے مری لے گیا۔ یہاں ہوٹل میں اس نے میرے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لئے۔

ایک انجان ملک میں میں کچھ بھی نہ کر سکی۔ مری سے وہ مجھے کسی اور مقام پر لے گیا۔ ایک ماہ ہم یوں ہی گھومتے پھرتے رہے اس دوران نوید نے مجھے کہا کہ وہ برطانیہ واپس جا کر وہ مجھ سے شادی کر لے گا۔ تقریبا دو تین ماہ پاکستان میں رہ کر ہم واپس برطانیہ آ گئے۔ والدہ بہت پریشان تھیں۔ اتنے لمبے عرصہ غائب ہونے پر والدہ یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ میں کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوں۔ میں نے جب انہیں پاکستان جانے کا بتایا تو وہ مجھ پر بہت ناراض ہوئیں کہ کیوں گئی تھیں۔ جب تمہارے باپ نے مجھے چھوڑ دیا اور پھر پلٹ کی خبر نہیں لی تو وہ کب تم سے ملنے والا تھا۔میں نے اب سٹی سینٹر میں ایک بڑے چین سٹور پر نوکری کر لی۔ ایک دن اچانک میری طبیعت خراب ہو گئی تو میں اپنی سرجری میں دوا لینے گئی۔ ڈاکٹر نے چیک کر کے بتایا کہ میں حاملہ ہوں۔ میں اگلے دن نوید کے پاس گئی جو برطانیہ واپس آنے کے بعد سے مجھے نہیں ملا تھا۔ اس نے جب یہ سنا تو وہ بہت گھبرا گیا۔ میں نے جب پاکستان میں کیا گیا مجھ سے شادی کا وعدہ یاد دلایا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ پھر وہ بھی میرے باپ کی طرح منظر سے غائب ہو گیا۔

میں نے جب والدہ کو یہ بات بتائی تو پہلے تو بہت غصہ ہوئیں اور پھر مجھے ابارشن کرانے کا مشورہ دیا۔ اس سے اگلے ہفتے میں نے ابارشن کروا لیا۔ لیکن اس کے کچھ دنوں بعد ڈپریشن کا شدید دورہ پڑنے کی وجہ سے میں گھر میں بند ہو گئی۔ والدہ نے مجھے بڑا سہارا دیا اور میرا علاج کرایا۔ ڈپریشن سے نکلنے میں مجھے پورا سال لگ گیا۔میں تندرست ہوئی تو ایک دن ایک شاپنگ سینٹر میں میرے ساتھ ائرپورٹ پر کام کرنے والی کولیگ مل گئی جو نوکری کے ساتھ یہ دھندا بھی کرتی تھی۔ اس نے مجھے اس دھندے کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں اور اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس نے سٹی سینٹر میں ایک فلیٹ کرایہ پر لیا ہوا تھا، ہم دونوں اس کے کرایہ میں حصہ دار بن گئیں۔ یوں میں اس کام میں آ گئی۔ بڑا آسان کام تھا۔ میں گیارہ بجے گھر سے نکلتی اور شام کو سات بجے واپس گھر پہنچ جاتی۔والدہ کو میں نے کبھی اس بارے میں نہیں بتایا۔ ہم مختلف ویب سائٹ پر اشتہار دیتیں اور لوگ ہم سے رابطہ کر کے ہمارے پاس کچھ وقت گزار کر اس وقت کی قیمت ہمیں ادا کر کے چلے جاتے تھے۔ پچھلے سال میری والدہ فالج کا حملہ ہو جانے کی وجہ سے مفلوج ہو کر گھر بیٹھ گئیں تو میرے لئے گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا۔ اب بھی میں ویب سائٹ پر اشتہار دیتی ہوں۔ کئی دفعہ جب دن میں کوئی نہ آئے تو میں رات کو اس طرح تیار ہو کر نکلتی ہوں تو کوئی نہ کوئی مل جاتا ہے جن میں زیادہ تر پاکستانی ہوتے ہیں۔

میری خواہش ہے کہ کبھی میرا باپ یا نوید میرا گاہک بن کر آئے تو میں ان کو بتاوں کہ اس طرح کسی کو چھوڑ کر جانے کا کیا انجام ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسووں کی برسات شروع ہو گئی۔ باتوں باتوں میں کافی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ میں اٹھ کر چلنے لگا تو اس نے میز پر پڑے پاونڈ پھر اٹھا کر مجھے دیے جو میں نے واپس نہیں لئے۔ چلتے وقت اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا کہ کیا میری کہانی لکھیں گے۔ پھر زور دے کر کہا کہ ضرور لکھنا۔
( یہ ایک سچی کہانی ہے جس میں بوجہ نام تبدیل کیے گئے ہیں )

واپس کریں